• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصہ میں تین مرتبہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

بخدمت جناب مفتی صاحب، السلام علیکم!

نہایت ادب سے عرض خدمت ہے کہ میں حافظ محمد عامر آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ میری سالی کو (جس کی شادی کو چھ ماہ ہوگئے ہیں) کچھ دن پہلے طلاق ہوگئی ہے۔ شوہر نے لڑائی کے دوران اپنے باپ، ماں، بھائی، بہنوں اور اپنی ساس اپنے چچا سسر، تایا سسر کے سامنے کھڑے ہوکر طلاق کے الفاظ تین مرتبہ یوں کہے کہ ’’میں اس کو طلاق دیتا ہوں،  میں اس کو طلاق دیتا ہوں، میں اس کو طلاق دیتا ہوں‘‘ اور بیوی بھی اس وقت وہیں موجود تھی۔ آپ سے نہایت ادب سے التماس ہے کہ ہمیں اس بارے میں وضاحت سے جواب دیں کہ کیا اس طرح طلاق واقع ہوگئی ہے؟

شوہر کا بیان (بذریعہ فون کال)

گھریلو معاملات پر لڑائی ہوگئی تھی جس کی وجہ سے شدید غصہ کی وجہ سے میرے منہ سے ایک ہی وقت میں تین مرتبہ یہ الفاظ نکل گئے تھے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ میں بہت شرمندہ ہوں کہ یہ کیا کردیا۔ اس وقت مجھ سے کوئی خلافِ معمول کام (مثلا کوئی توڑ پھوڑ وغیرہ) سر زد نہیں ہوا۔(رابطہ کنندہ :صہیب ظفر)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر نے شدید غصہ کی حالت میں طلاق دی ہے لیکن یہ غصہ کی ایسی کیفیت نہیں تھی کہ جس میں شوہر کو کچھ معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے  اور نہ ہی شوہر سے کوئی خلافِ عادت کام سرزد ہوا ہے اور غصہ کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

در مختار مع رد المحتار(439/4) میں ہے:

وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اه

(وبعد أسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل

در مختار مع رد المحتار(4/509) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل

قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved