• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصہ میں تین طلاقیں

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

شوہر کا بیان

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے ملیریا بخار ہوگیا اور میرے پیشاب کا مسئلہ بن گیا جس کی وجہ سے میں حافظ آباد اسپتال میں رہا وہاں ڈاکٹروں نے مجھے ڈراپ لگا لگا کر مجھے اور زیادہ بیمار کر دیا میرے سسرال والوں کا میرے اوپر دباؤ تھا کہ آپ اپنی بیگم کے ساتھ لاہور میں رہیں، اس دوران میں بیمار بھی تھا اور میرا علاج بھی چل رہا تھا ،جس پر میرے اور میرے سسرال والوں کی لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا تھا، بیماری میں میری کیفیت یہ تھی کہ میرا دماغ پورے طور پر کام بھی نہیں کرتا تھا اور میرے اوپر جادو کا اثر بھی تھا ،اس دوران میرے سسرال کی طرف سے طلاق کا مطالبہ ہوا ،میرے بھائی سے میری ساس نے فون کروایا، ساس نے بات کی کہ ’’بیٹی کو فارغ کرو ‘‘کئی دفعہ فون کیا، میں تنگ آگیا تھا ،کافی دیر بات کرنے کے بعد شدید غصے میں میں نے کہا لاؤڈاسپیکر آن کرو پھر میں نے یہ تین  الفاظ بول دیئے‘‘ مفتی صاحب میرا مزاج ہے میں اپنی بیوی کو کبھی طلاق نہیں دے سکتا،میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میری زبان سے غصہ اور ذہنی توازن کی خرابی کی وجہ سے تین مرتبہ طلاق کے الفاظ نکل گئے، مجھے یاد تو ہے کہ میں نے تین طلاق کے الفاظ بولے ہیں لیکن میرا ارادہ بالکل بھی نہیں تھا کہ طلاق دے دوں گا ،بیماری اور غصے کی شدت سے یہ ہو گیا ۔یہ میرا حلفی بیان ہے شرعی طور پر بتائیں کہ کیا شرعی طور پر طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟

بیوی کا بیان

میرے میاں نے جو بیان کیا سارا واقعہ ایسا ہی ہے، جب انہوں نے یہ الفاظ بولے تو بولنے سے پہلے کہا ’’صبا کو فون دو‘‘ مجھے فون دیا گیا تو انہوں نے یہ الفاظ بول دیئے، میں نے فون پھینک دیا تھا، پھر میں رات کو ہی اپنے شوہر کے پاس آ گئی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر نے غصے کی حالت میں طلاق دی ہے لیکن غصے کی نوعیت ایسی نہیں تھی کہ اسے کچھ پتہ ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اور نہ ہی غصے میں اس سے خلاف عادت ،کوئی قول یا فعل صادر ہوا ہے۔ غصہ کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے ،لہذا مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، لہذا اب نہ صلح ہو سکتی ہےاور نہ رجوع کی گنجائش ہے۔

شامی جلد 4 صفحہ 439 میں ہے:

قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله.

وفيه بعد اسطر

فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن ادراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

بدائع الصنائع جلد 3 صفحہ 295 میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠]

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved