• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم

استفتاء

گزارش ہے کہ میں حافظہ بسمہ ظفر ،اللہ تعالی کو حاضر جان کر سب کچھ سچ لکھ رہی ہوں۔ شادی کے بعد صرف دو ماہ ٹھیک طریقے سے گزرے ۔بعد میں میرے شوہر اور ان کے گھر والوں نے مجھے اور میرے والدین کو بہت تنگ کیا ۔میں تقریبا 7 ماہ اپنے شوہر کے گھر رہی اور میرے والدین نے 4 مرتبہ ان کے گھر واپس بھیجا ۔ہر ایک ڈیڑھ ماہ بعد میرے ساتھ جھگڑا کرتا ۔سارا دن گھر پر سوتا رہتا تھا اور شام چار بجے دوکان پر جاتا تھااور رات 2 سے 3 بجے گھر واپس آتا تھا ۔ اور اب رمضان سے پہلے کی طلاق دے چکا ہے اس کے بعد سے میں 4,5ماہ سے اپنی والدہ کے گھر پر ہوں ،کوئی رابطہ وغیرہ نہیں کرتا اور اب ہم نے خلع بھی دائر کر رکھا ہے ۔آخری مرتبہ لڑائی میں 3 مرتبہ طلاق دے چکا ہے اور اپنی گردن پر چھری بھی چلا چکا ہے ۔

طلاق کے الفاظ یہ تھے "بسمہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ،بسمہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں” یہ کہنے کے بعد اپنی گردن پر چھری چلانے لگا میں نے شور مچایا تو گھر والے  اکٹھے ہو گئے اور اس کو پکڑا۔لہذا اب مہر بانی فرما کر مجھے فتوی دیا جائے ۔

شوہر کا بیان :

میں انتہائی غصے میں تھا اور اپنی زندگی سے تنگ آیا ہوا تھا اور خود کشی کرنے کا سوچ رہا تھا مجھے کچھ سمجھ  نہیں تھی میں گھر آیا تو بیوی نے کچھ کہا تو میں نے اسے طلاق کے جملے بول دئیے اور اپنی گردن پر چھری چلانے لگا اتنے میں بیوی نے سب کو بلا لیا ۔ مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ کیا بول رہا ہوں میں بالکل مدہوش تھا بہت دیر بعد ہوش میں آیا تو بیوی نے بتایا تم نے مجھے طلاق دےدی ہے ۔ میں بہت نادم ہوا تب سے ابھی تک استغفار کر رہا ہوں۔میں اس بات پر حلف دے سکتا ہوں کہ میں ہوش میں نہیں تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً طلاق کے الفاظ بولتے وقت شدید غصہ کی وجہ سے شوہر کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ اس نے اپنے گلے پر چھری چلانے کی بھی کوشش کی تھی تو اس صورت میں  کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

توجیہ: طلاق کے الفاظ بولتے وقت اگر غصہ اتنا شدید ہوکہ شوہر سے خلاف عادت اقوال وافعال صادر ہونے لگیں تو غصے کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق معتبر نہیں ہوتی۔ مذکورہ صورت میں شوہر کے بیان کے  مطابق  اس سے غصہ کی شدت میں خلاف عادت فعل پایا گیا یعنی اپنی گردن پر چھری چلانے لگا لہٰذا غصہ کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں  ہوئی۔

رد المحتار(439/4) میں ہے:

وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اه……………

(وبعد اسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved