• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے کی حالت میں طلاق کی ایک صورت

استفتاء

محترم المقام حضرت مفتی صاحب مدظلہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

درج ذیل مسئلہ کے بارے میں مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں:

میاں کا بیان

ہم دونوں میاں بیوی کے درمیان کچھ عرصہ سے جھگڑا چل رہا تھا، جھگڑے کی اصل بنیاد یہ ہے کہ میری بیوی میرا کہنا نہیں مانتی، میں نے بارہا اپنے خاندان کے بزرگوں کے سامنے یہ بات رکھی انہوں نے بھی میری بیوی کو سمجھایا، مگر معاملہ جوں کا توں رہا۔ ان حالات سے کنارہ کشی کے لیے میں اکیلا *** چلا گیا، اور وہاں ایک دفتر میں کام شروع کر دیا۔

میری بیوی، میری چھوٹی بچی کو لے کر بذریعہ بس*** اکیلی آگئی، میں نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ اکیلی کیوں آئی، اور یہ مطالبہ کیا کہ وہ واپس ملتان جائے، وہاں خاندانی بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالیں گے، مگر وہ بضد تھی، میں نے کہا اچھا ایک رشتہ دار کا گھر خالی ہے، وہاں جا کر رہو، مگر وہ بضد تھی کہ میں آپ کے گھر رہوں گی، اگر تم نے گھر نہ کھولا تو میں گھر کے تالے توڑ دوں گی، چنانچہ میں نے اپنے دفتر سے گھر کی چابیاں بھجوا دیں، وہ تین دن وہیں رہی، اس کی نانی بھی لاہور سے آگئیں، ان تین

دنوں میں بیوی کو بھی سمجھاتا رہا، اور ملتان اپنے بزرگوں کو ساری صورت حال سے آگاہ کرتا رہا، مگر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔

مجھے یہ قوی اندیشہ تھا کہ میری بیوی میرے دفتر کا رخ بھی کرے گی، چنانچہ اسے اور اس کے رشتہ داروں کو کہتا رہا کہ وہ میرے دفتر نہ آئے، ورنہ معاملہ غلط ہو جائے گا۔ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، اس نے فون کیا اور وہ دفتر آنے لگی، تو میں نے دفتر چھوڑا اور باہر جانے لگا تو وہ مجھے دفتر کے داخلی دروازے پر ملی اور پھر میری گاڑی کے پاس آگئی، اس کی نانی بھی اس کے ہمراہ تھی، میں نے اس کی نانی کو بھی کہا کہ بات اچھی نہیں ہے اور بیوی کو بھی سمجھایا کہ آپ ملتان جائیں، وہاں خاندان میں بیٹھ کر مسئلہ حل کریں گے، اور اگر آپ اکیلی نہیں جانا چاہتی تو میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔

کافی دیر بحث وتکرار ہوتی رہی، پھر اس نے کہا کہ آپ مجھے چھوڑنا چاہتے ہو اور آپ کا کسی لڑکی سے تعلق ہے، اس لیے مجھے چھوڑنا چاہتے ہو، تو پھر مجھے چھوڑ دو، میں تین چار روز سے غصہ میں تھا، اور اس وقت غصے میں مزید اضافہ ہو گیا۔ میری نیت طلاق دینے کی نہیں تھی، لیکن انتہائی غصے کی وجہ سے میں نے کہا  ’’تو میری جان چھوڑ، میں تجھے چھوڑتا ہوں، طلاق، طلاق، طلاق‘‘۔ پھر میں نے کہا میں لکھ کر بھی دے دوں، چنانچہ ایک سادہ کاغذ پر میں نے انگریزی میں divorce ایک دفعہ لکھا اور دوسری دفعہ صرف  div لکھا، اور میں لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھتا ہوا ٹیکسی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ اس وقت مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، پھر میں نے بیوی کو فون پر میسج کیا کہ میں نے طلاق نہیں دی، غصے کی حالت میں یہ سب کچھ ہوا ہے۔ پھر وہ اپنا سامان لے کر ملتان روانہ ہو گئی۔

بیوی کا بیان

ہم دونوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا چل رہا تھا، میرا میاں مجھے اور بچی کو چھوڑ کر***چلا گیا، میں ملتان سے***آگئی کہ معاملہ کو سلجھا سکوں، کیونکہ میں اکیلی بچی کے ساتھ نہیں رہ سکتی، وہاں ہماری بحث وتکرار ہوئی اور اس نے غصہ میں مجھے کہا ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘، یہ تین دفعہ کہا، اس کے بعد کاغذ پر انگریزی میں ایک  divorce کا پورا لفظ لکھا، اور دوسری دفعہ div صرف تین حرف لکھے۔

پھر میری نانی کو جا کر کہا کہ میں نے اسے طلاق دے دی ہے۔ پیپر (کاغذ) بھیج دوں گا، اس کے بعد اپنی تایا زاد بہن کے ہاں فون کر کے طلاق کے متعلق بتایا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے بیان کو لیں یا بیوی کے بیان کو لیں، بہر حال تین طلاقیں ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے، اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں میاں کے بیان  بیوی کے مطابق اگرچہ یہ طلاق غصہ کی حالت میں دی گئی ہے، لیکن غصہ کی حالت ایسی نہیں کہ جس میں دی گئی طلاق معتبر نہ ہوتی ہو۔ کیونکہ شوہر کو اپنے کہے ہوئے الفاظ کا علم بھی ہے اور اس موقعہ پر شوہر سے کوئی

خلاف عادت قول یا فعل کا صدور بھی نہیں ہوا۔

في رد المحتار (4/ 439):

إنه [أي الغضب] على ثلاثة أقسام: أحدها: أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله و يعلم ما يقول و يقصده، و هذا لا إشكال فيه. الثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول و لا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، و الأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اه…. لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حىث قال: و يقع طلاق من غضب خلافاً لابن القيم اه، و هذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش، لكن يرد عليه. …….. فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش و نحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله و أفعاله الخارجة عن عادته….. فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال و الأفعال لا تعتبر أقواله و إن كان يعلمها و يريدها، لأن هذه المعرفة و الإرادة غير معتبر لعدم حصولها عن إدراك صحيح.

………………………………………………… فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved