• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے کی حالتیں

استفتاء

کوئی شخص اپنی زوجہ کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے،مثلاً*** کی بیوی گھر سے بھاگ کر کسی رشتہ دار کے گھر میں گئی ، ایک ہفتہ تک وہاں رہی جس پر *** نے بحالت غضب اس کو تین طلاق دے دیا۔ ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دیا۔ لیکن غصہ دور ہونے پر اس نے اطلاع بھیجی کہ میں ذہنی انتشار میں مبتلاء ہوں ، لہذا میری بیوی کو طلاق  نہیں ہوئی ، مجھے واپس کردو،لیکن بیوی کے بھائی اور والد اور رشتہ دار نہیں مانتے۔

جبکہ امداد الفتاویٰ جلد نمبر2،صفحہ نمبر396 کتاب الطلاق حضرت مولانا حکیم الامت اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتےہیں” کہ ایک بھی طلاق واقع نہیں ہوگی”۔ برائے مہربانی اگر طلاق واقع نہیں ہوئی تو جواب عنایت فرمائیں۔

امداد الفتاویٰ کی عبارت

(صفحہ نمبر:395 جس کی عبارت میں لکھتاہوں*** اپنی بیوی ***سے چند روز قبل سے ناخوش وناراض رہاکرتاتھا۔

کل اتفاق یہ ہوا ***جس وقت حویلی میں گیا ،تو*** کو وحیات حرافات بولتے پایا، اس نے منع کیا نہیں ماننے پر بات بڑھ گئی، اور***نے دو جوتے*** کو مارے جس پر *** نے*** کو ماں بہن کی گالی دی***نے بحالت غضب***کو کہا میں نے تجھے طلاق دی، طلاق دی،طلاق دی۔ اب سوال یہ ہے کہ طلاق بائن ہوئی یا نہیں؟ ازروئے شرع شریف کوئی صورت پھر اپنی زوجیت میں لانے کا ہے یا نہیں؟

جواب: صفحہ396 جلد نمبر2 ،صورت مسئولہ میں اگر*** کا ۔۔۔اس قدر تھا کہ*** کے ہوش وہواس درست نہ تھے یا غصے کی وجہ سے کسی امرکا صحیح ارادہ نہ کرسکابلکہ بے خودی میں ایسے کام اس سے سرزد ہوئے ہوں، جن پرغصہ دور ہونے کے بعد سخت نادم ہونا پڑے تو ان دونوں صورتوں میں طلا ق ہی واقع نہ ہوگی)۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

غصہ کی حالت میں طلاق ہونے نہ ہونے کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر غصہ کی ابتدائی حالت ہوکہ جس میں ہوش وحواس پورے طورپر قائم ہوں اور جوکچھ کہتاہے اس کو جانتا بھی ہے اور اپنے قصد وارادہ سے کہتا ہے تو غصہ کی اس حالت میں طلاق ہوجاتی ہے۔

اور اگر غصہ اپنی انتہاء کو پہنچ گیا ہو کہ جس کی وجہ سے آدمی بالکل پاگل بن گیا ہو اور دیوانوں کی سی باتیں کرنے لگا ہو اور نہ ہوش وحواس قائم ہوں اور نہ ہی یہ پتا ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور نہ ہی کہنے میں اس کا ارادہ شامل ہو توغصے کی ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اوراگر غصہ کی نہ ابتدائی حالت ہو اور نہ انتہائی حالت ہو بلکہ درمیان کی سی حالت ہو کہ اتنا ہوش تو ہو کہ اسے پتہ چل رہا ہو وہ کیا کہہ رہاہے، لیکن ہوش وحواس اور عقل میں کچھ خلل آجائے اور اکثر باتیں اور افعال اس سے خلاف عادت صادر ہونے لگیں تو غصے کی ایسی صورت میں بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

البتہ سوال میں مذکورہ صورت میں طلاق ہوئی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ ہم اس وقت تک نہیں کرسکتے جب تک میاں، بیوی ، اور گواہوں کا غصے کی مذکورہ فی السوال حالت سے متعلق تفصیلاً تحریری بیان ہمارے سامنے نہ آجائے۔

اورجتنا بیان مذکور ہے وہ فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں۔

باقی امدادالفتاویٰ کے حوالے سے جو فتویٰ غصے کی حالت میں طلا ق واقع نہ ہونے سے متعلق سائل نے ذکر  کیا ہے وہ فتویٰ درحقیقت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ کا نہیں بلکہ کسی اور صاحب کا ہے جو تصدیق کے لیے حضرت ؒ کے پاس بھیجا گیا اور حضرتؒ نے اس کی تردید فرمائی ہے۔ اسی صفحہ پر ذرا آگے ملاحظہ فرمائیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved