• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حمل میں دو طلاقیں دیں پھر وضع حمل کے بعد تین طلاقنامے لکھوائے تو کیا صلح ہوسکتی ہے؟

استفتاء

السلام علیکم،میرا سوال یہ ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو حالت حمل میں ستمبر 2021 میں وائس میسج کے ذریعے ایک طلاق دی تھی جس کے الفاظ یہ تھے کہ "میں تمہیں ایک طلاق دیتا ہوں”  پھر دو مہینے بعد نومبر 2021 میں حالت حمل میں وائس میسج کے ذریعے دوسری طلاق دی تھی، جس کے الفاظ یہ تھے کہ "میں تمہیں دوسری طلاق دیتا ہوں” پہلی اور دوسری طلاق کے بعد بیوی سے فون پر بات ہوئی تھی، میرے سسرال والے چاہتے تھے کہ میں رجوع کر لوں لیکن میں نے رجوع نہیں کیا، بچے کی پیدائش کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ میں تحریری طور پر پاکستانی قانون کے مطابق تینوں طلاقیں دے دوں، لہذا میں نے تینوں طلاقیں لکھ دی تھیں، طلاقنامے ساتھ لف ہیں، اب میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا  میرا نکاح دوبارہ ہو سکتا ہے؟

بیوی کا بیان: سائل کی بیوی نے وائس میسج کے ذریعے بیان دیا کہ میں شوہر کے بیان سے اتفاق کرتی ہوں، ستمبر 2021 میں وائس میسج کے ذریعے ایک طلاق دی تھی ، پھر دو مہینے بعد نومبر 2021 میں حالت حمل میں وائس میسج کے ذریعے دوسری طلاق دی تھی، لیکن وہ وائس میسج مجھ تک نہیں پہنچا، دونوں طلاقوں کے بعد انہوں نے رجوع نہیں کیا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتہ دو طلاقوں کے بعد رجوع نہیں ہوا تھا تو مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں  واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے، لہذا اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں، اور اگر رجوع ہوگیا تھا تو تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں اور اب صلح یا رجوع کی گنجائش نہیں۔

نوٹ: دوبارہ نکاح کرنے کے بعد آئندہ شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی ہو گا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب پہلی مرتبہ شوہر نے  یہ الفاظ کہے کہ  "میں تمہیں ایک طلاق دیتا ہوں”  تو ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی، پھر دو مہینے بعد عدت کے اندر جب شوہر نے یہ الفاظ کہے کہ "میں تمہیں دوسری طلاق دیتا ہوں” تو ’’الصریح یلحق الصریح‘‘ کے تحت دوسری رجعی طلاق واقع ہو گئی، پھر چونکہ وضع حمل تک چونکہ شوہر نے رجوع نہیں کیا لہذا عدت گزرنے سے رجعی طلاق بائنہ بن گئی، عدت کے بعد لکھوائے جانے والوں طلاقناموں سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ عدت گزرنے کی وجہ سے بیوی طلاق کا محل نہیں رہی۔

بدائع الصنائع (283/3) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.

درمختار (5/42) میں ہے:

(وينكح) مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع.

درمختار مع ردالمحتار (419/4) میں ہے:

(ومحله المنكوحة)

(قوله ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved