• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے طلاق کے دو نوٹس بھیجے تو عدت کب پوری  ہو گی؟جبکہ عورت کی ماہواری چار سال سے بند ہے

استفتاء

میں گزشتہ دو سال سے سامان سمیت اپنے والدین کے گھر ہوں،میرے شوہر نے 15فروری 2021 کو فون پر مجھے بتایا کہ میں نے تمہیں طلاق کا نوٹس بھیجا ہے پھرایک ماہ کے بعد مجھ سے رابطہ کیا لیکن طلاق کے نوٹس کا ذکر نہیں کیا بہرحال یونین کونسل کی طرف سے بھی مجھے کچھ موصول نہیں ہوا اسی دوران صرف فون کی حد تک میری اس سے بات چیت ہوتی رہی، اب24اگست 2021 کو اس نے خود رجسٹری کرکے ایک ہی دفعہ میں طلاق کے دو نوٹس بھیجے پہلے نوٹس پر 15فروری2021کی تاریخ درج ہے اور دوسرے نوٹس پر 7جولائی2021 کی تاریخ درج ہے، میرا اور میرے شوہر کا ٹیلی فون پر رابطہ 11جولائی سے ختم ہو چکا ہے اور نومبر 2020 سے ہمارے درمیان میاں بیوی والاکوئی تعلق نہیں ہے، میں کرایہ پر رہتی تھی مجھے ایک دکاندار نے بتایا کہ اس نے میری دکان پر پچھلے سال طلاق کا نوٹس بھیجا تھا لیکن پھر بعد میں منع کردیا کہ مجھے نہ دیا جائے،اب مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ15فروری کو دی گئی طلاق اور 27 جولائی کو دی گئی طلاق جو مجھے 24 اگست کو مل رہی ہے اور اس دوران ہماری آمنے سامنے ملاقات بھی نہیں ہوئی تو کیا یہ طلاق ہوگئی کہ نہیں؟اور کیا میری عدت گزرگئی ہے ؟میری عمر 49سال ہے اورتقریباً چار سال سے مجھے ماہواری نہیں آئی،اور یہ ہمارا خاندانی مسئلہ ہے والدہ اور بہنوں سب کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ وقت سے پہلے ماہواری بند ہو جاتی ہے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ:

1۔طلاق ناموں کی تصویریں بھیجیں۔

2۔شوہر کا مؤقف معلوم کرنے کے لئےاس کا رابطہ نمبر بھیجیں۔

3۔کیا شوہر نے زبان سے کبھی طلاق دی ہے؟

جواب وضاحت:

1۔تصویریں ساتھ لف ہیں۔

2۔مجھے بس یہ بتائیں کہ طلاق ہو گئی ہے یا نہیں؟میں شوہر کا رابطہ نمبر نہیں دے سکتی۔

3۔شوہر نے کبھی بھی منہ سے طلاق نہیں دی۔

پہلےطلاق نامہ کی عبارت:

’’منکہ محمد *****۔۔۔۔۔کا نکاح/شادی ہمراہ مسمات ****سے مورخہ2010-01-31 بشریعت محمدی انجام پائی تھی۔۔۔۔۔لہذابا ہوش و حواس خمسہ بلا جبرو اکراہ درج بالا وجوہات کی بنا پر میں ****اپنی بیوی مسماۃ **** کو طلاق دیتا ہوں،’’طلاق دیتا ہوں مذکوریہ آج سے میرے نفس پر حرام ہو چکی ہےاور آج سے وہ میری زوجیت سے آزاد ہے۔۔۔۔۔لہذا یہ دستاویز تحریرو تکمیل کر کےاس پر دستخط روبرو گواہان حاشیہ ثبت کر دئیے ہیں تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔دستخط شوہر بتاریخ:2021-02-15‘‘

دوسرے طلاق نامہ کی عبارت:

’’منکہ ****ولد ****۔۔۔۔۔کا نکاح/شادی ہمراہ مسمات ******سے مورخہ2010-01-31 بشریعت محمدی انجام پائی تھی۔۔۔۔۔لہذابا ہوش و حواس خمسہ بلا جبرو اکراہ درج بالا وجوہات کی بنا پر میں ******اپنی بیوی مسماۃ *******کو طلاق ثلاثہ دیتا ہوں،’’طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں‘‘۔۔۔۔۔لہذا یہ دستاویز تحریرو تکمیل کر کےاس پر دستخط روبرو گواہان حاشیہ ثبت کر دئیے ہیں تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔ دستخط شوہر بتاریخ:21-07-27‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

بیوی کی طرف سے مہیا کیے گئے دو طلاق ناموں کی رو سےمذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو چکا ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے ۔اورآپ کی عدت پہلی طلاق کے بعد یعنی 15 فروری2021سے شروع ہو گئی تھی اور آپ کی عدت تین حیض سے ہی پوری ہوگی البتہ اگر اسی حالت میں آپ کی عمر 55سال ہو جائے توآپ 55سال کے بعد 90دن کی عدت گزار کرآگے نکاح کر سکتی ہیں۔لیکن اگر آپ کیلئے اتنا عرصہ عدت میں گزارنا مشکل ہو یا اتنا عرصہ بغیر نکاح کے رہنا مشکل ہو تو آپ 50 سال پورے ہونے کےبعد  90 دن کی عدت گزار کر آگے نکاح کر سکتی ہیں۔

نوٹ: یہ جواب بیوی کے بیان مطابق اور اس کی طرف سے مہیا کیے گئے طلاقناموں کی رو سے لکھا گیا ہےلہذااگر شوہر کے بیان کے مطابق صورت حال اس سے مختلف ہوئی تو یہ جواب بدل سکتا ہے۔

درمختار مع ردالمحتار(4/442)میں ہے:

’’كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة

قال ابن عابدين: (قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: ‌مرسومة وغير ‌مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير ‌مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت ‌مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو…..‘‘

درمختار مع ردالمحتار(4/528)میں ہے:

’’(الصريح يلحق الصريح ‌و) ‌يلحق (‌البائن) بشرط العدة…

(قوله ويلحق البائن) كما لو قال لها أنت بائن أو خلعها على مال ثم قال أنت طالق أو هذه طالق بحر عن البزازية…..المراد بالصريح هنا حقيقته لا نوع خاص منه وهو ما وقع به الرجعي فقط بل الأعم‘‘

فتاویٰ ہندیہ(2/411)میں ہے:

’’وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية‘‘

فتاویٰ ہندیہ(2/527)میں ہے:

"ابتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق، وفي الوفاة عقيب الوفاة، فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت عدتها، كذا في الهداية”.

درمختارمع ردالمحتار(5/186)میں ہے:

’’(و) العدة (في) حق (‌من ‌لم ‌تحض) حرة أم أم ولد (لصغر) بأن لم تبلغ تسعا (أو كبر) بأن بلغت سن الإياس (أو بلغت بالسن) وخرج بقوله (ولم تحض) الشابة الممتدة بالطهر بأن حاضت ثم امتد طهرها، فتعتد بالحيض إلى أن تبلغ سن الإياس جوهرة وغيرها….. (ثلاثة أشهر) بالأهلة لو في الغرة وإلا فبالأيام بحر وغيره‘‘

ردالمحتار(5/199)میں ہے:

ذكر في الحقائق شرح المنظومة النسفية في باب الإمام مالك ما نصه: وعندنا ما لم تبلغ حد الإياس لا تعتد بالأشهر، وحده خمس وخمسون سنة هو المختار، لكنه يشترط للحكم بالإياس في هذه المدة أن ينقطع الدم عنها مدة طويلة وهي ستة أشهر في الأصح، ثم هل يشترط أن يكون انقطاع ستة أشهر بعد مدة الإياس؟ الأصح أنه ليس بشرط، حتى لو كان منقطعا قبل مدة الإياس ثم تمت مدة الإياس وطلقها زوجها يحكم بإياسها وتعتد بثلاثة أشهر، هذا هو المنصوص في الشفاء في الحيض وهذه دقيقة تحفظ. اهـ

ردالمحتار(5/198)میں ہے:

’(و) الإياس(سنة) للرومية وغيرها(خمس وخمسون) عند الجمهور وعليه الفتوى. وقيل الفتوى على خمسين نهر

قال ابن عابدين:(قوله: وقيل الفتوى على خمسين) قال القهستاني:وبه يفتى اليوم كما في المفاتيح‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved