• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

امام شافعی کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :

ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی یا نہیں؟ فقہاء اربعہ کے نزدیک اس کا کیا حکم ہے؟ ایک ساتھی کہتا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار  ہوتی ہیں۔ کیا یہ صحیح ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ایک مجلس کی تین طلاقیں تین شمار ہوں گی، یہی ائمہ اربعہ کا متفقہ مذہب ہے۔

البتہ مجموعۃ الفتاوی میں علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے یہ لکھا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی۔ لیکن علامہ عبد الحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ سے غلطی ہوئی جس پر اکابر اہلِ فتویٰ نے تنبیہ بھی کی ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’الام‘‘ اور فقہ شافعی کی دوسری کتابوں کے بھی یہ بات خلاف ہے۔

چنانچہ مجموعۃ الفتاوی (2/69)میں ہے:

سوال: زید نے اپنی عورت سے غصہ کی حالت میں کہا میں نے طلاق دی، میں نے طلاق دی، میں نے طلاق دی،پس اس تین بار کہنے سے تین طلاقیں واقع ہوں گی یا نہیں؟ اور اگر حنفی مذہب میں واقع ہوں اور شافعی مذہب میں مثلا واقع نہ ہوں تو حنفی کو شافعی مذہب پر اس خاص صورت میں عمل کرنے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں؟

الجواب: اس صورت میں حنفیہ کے نزدیک تین طلاقیں واقع ہوں گی اور بغیر تحلیل کے نکاح نہ درست

ہوگا،مگر بوقتِ ضرورت کہ اس عورت کا اس سے علیحدہ ہونا دشوار ہو اور احتمال مفاسد زائدہ کا ہو اگر تقلید کسی اور امام کی کرے گا تو کچھ مضائقہ نہ ہوگا،اس کی نظیر مسئلہ نکاح زوجہ مفقود و عدت ممتدۃ الطہر موجود ہے کہ حنفیہ عند الضرورت امام مالک رحمہ اللہ کے قول پر عمل کرنے کو درست رکھتے ہیں چنانچہ ردالمحتار میں مفصلا مذکور ہے، لیکن اولی یہ ہے کہ وہ شخص کسی شافعی عالم سے پوچھ کے اس کے فتوے پر عمل کرے۔

امدادالاحکام (2/641) میں ہے:

الجواب: مولانا لکھنوی سے اس مقام پر سخت لغزش ہوئی ہے، ان کے کلام میں دو جزو ہیں۔ اول یہ کہ: زوجہ مفقود کی طرح یہاں بھی ضرورت ہے،[اور دوم امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف ایک مجلس کی تین طلاقوں کے ایک ہونے کی نسبت]اور یہ دونوں مخدوش ہیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اس قول کی نسبت بالکل غلط ہے، ائمہ اربعہ اور جمہور خلف و سلف کا صورت مذکورہ میں وقوعِ ثلاث پر اتفاق ہے، جیسا کہ شرح مسلم للنووی اور فتح الباری سے واضح ہے، اور توحد طلاق کا قول اجماعِ صحابہ کے خلاف ہے ہرگز قابل عمل نہیں، دلائل دیکھنے کا شوق ہو تو فتح الباری اور عمدۃ القاری ملاحظہ فرمائیں، نیز حضرت حکیم الامت مدظلہم العالی کا رسالہ”ردالتوحد” (جو رسالہ النور ماہ شوال و ذیقعدہ 51ھ میں شائع ہو چکا ہے) قابل ملاحظہ ہے اور زوجہ مفقود پر اس کو قیاس کرنا بھی ہرگز صحیح نہیں کیونکہ وہاں مذہب مالک اختیار نہ کریں تو اس کے واسطے کوئی سبیل ہی نہیں اور یہاں ایسا نہیں، بلکہ اس خاوند کے علاوہ دوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے،اسی شخص پر کوئی ضرورت موقوف نہیں، اگر یہ مر جائے تو کیا کرے؟ اگر ایسی ضرورتوں کا لحاظ کیا جائے تو ہر شخص اس کا دعوی کر سکتا ہے، غرض یہ کہ یہ فتوی بالکل غلط ہے، اس پر عمل کرنا بالکل جائز نہیں۔‘‘

خیرالفتاوی (5/196) میں ہے:

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام دریں مسئلہ کہ زید نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں،اب احناف کے نزدیک مذکورہ عورت بغیر حلالہ کے زید کے گھر آباد نہیں ہو سکتی، کیا ضرورت شدیدہ کے وقت امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب کو اختیار کرتے ہوئے تین طلاقوں کو ایک شمار کیا جا سکتا ہے؟جیسا کہ مجموعۃ الفتاوی میں مولانا عبدالحی رحمہ اللہ تعالی نے لکھا ہے کہ تین طلاقوں میں بوقت ضرورت کسی شافعی المسلک عالم سے پوچھ کر اس کے فتوی پر عمل کیا جائے اور اس کی نظیر مسئلہ نکاح زوجہ مفقود و عدت ممتدۃ الطہر میں موجود ہے کہ امام مالک کے قول پر عمل کرنے کو درست کہتے ہیں، ردالمحتار میں مفصلا مذکور ہے۔

الجواب: یہاں تین امور کا بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:

(1)  مذہب غیر پر عمل کرنا کس وقت جائز ہے۔

(2)  مسئلہ مذکورہ کو مسئلہ زوجہ مفقود پر قیاس کرنا۔

(3)  مسئلہ مذکورہ میں امام شافعی کا مذہب کیا ہے؟

(3)  مسئلہ مذکورہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب:

علامہ لکھنوی رحمہ اللہ تعالی نے امام شافعی کی طرف جو اس قول  کی نسبت کی ہے یہ بالکل غلط ہے، کیونکہ ائمہ اربعہ اور جمہور سلف و خلف کا صورت مذکورہ میں وقوع ثلاث پر اتفاق ہے۔

(1) قال العلامة النووى رحمه الله تعالى” و قد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي و مالك و ابوحنيفة و احمد و جماهير العلماء من السلف و الخلف يقع الثلاث (شرح النووی علی مسلم جلد1 صفحہ 478)

(2) علامہ بدرالدین العینی رحمہ اللہ تعالی صحیح بخاری شریف کی شرح عمدۃ القاری میں تحریر فرماتے ہیں:

حيث قال "و مذهب جماهير العلماء من التابعين و من بعدهم منهم الأوزاعي و النخعي و الثورى و ابوحنيفة و أصحابه و مالك و أصحابه والشافعي و أصحابه و احمد و أصحابه و إسحاق و ابوثور و ابوعبيدة و آخرون كثيرون على أن من طلق امرأته ثلاثا يقعن و لكنه يأثم (عمدة القاری جلد1 صفحه 232)

(3)” و مذهب جماهير العلماء من التابعين و من بعدهم وابي حنيفة و أصحابه و مالك و أصحابه والشافعي و أصحابه على أن من طلق ثلاثا يقعن و لكنه يأثم(زجاجة المصابیح شرح مشکوٰة المصابیح جلد2 صفحه 470)

(4) اعلم أن أئمة الأربعة اتفقوا على وقوع الثلاث جملة سواء كان بلفظ واحد او بثلاث ألفاظ (منهاج السنن جلد4 صفحه 302)

(5) قال النووى "اختلفوا فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال مالك والشافعي وأحمد وابوحنيفة والجمهور من السلف و الخلف يقع ثلاثا (مرقاة المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد6 صفحه 293)

(6) وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث (جلد 3 صفحه 330)

حوالہ جات مذکورہ سے معلوم ہوا کہ ائمہ اربعہ و نیز تقریبا سب صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین اس پرمتفق ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، جب شوافع کا یہ مسلک ہی نہیں تو ایک طلاق کا فتوی کیسے دیں گے۔اور خود علامہ موصوف کو بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ جمہور صحابہ و ائمہ اربعہ کے مذہب کے موافق تین طلاق واقع ہو جاتی ہیں جیساکہ مجموعۃ الفتاوی جلد2 صفحہ59 پر مفصل فتوی درج ہے، الغرض مجموعۃ الفتاوی کا یہ فتوی درست نہیں اور نہ اس پر عمل کرنا جائز ہے ۔

کفایت المفتی (6/95) میں ہے:

سوال: زید نے اپنی زوجہ کو بایں الفاظ طلاق نامہ جب کہ وہ حیض سے تھی حالت غضب میں تحریر کر کے دیا کہ ” ہندہ بنت بکر کو تینوں طلاق ساتھ دیتا ہوں،راقم زید بن فلاں” تو اس صورت میں عند الشافعی یا عند احمد یا مالک طلاق واقع ہوگی یا نہیں ؟ اگر واقع ہوگی تو کتنی؟

جواب: ایک لفظ سے یا ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں پڑ جاتی ہیں، اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے، حیض کی حالت میں بھی طلاق پڑ جاتی ہے البتہ اگر ایک دو طلاق دی گئی ہوں تو رجعت لازم ہوتی ہے۔

کتاب الام (3288/2 باب فی طلاق الثلاث المجموعۃ) میں ہے:

قال الشافعي رضي الله عنه "وحكم الله عز وجل في الطلاق أنه مرتان ( فامساك بمعروف او تسريح باحسان)  [البقرة:230] وقوله عز وجل ( فإن طلقها) [البقرة:230] يعني- والله اعلم- الثلاث، (فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره) [ البقرة:230]  فدل حكمه ان المرأة تحرم بعد الطلاق ثلاثا حتى تنكح زوجا غيره و جعل حكمه بان الطلاق الى الازواج يدل على انه اذا حدث تحريم المرأة بطلاق ثلاث وجعل طلاقها الي زوجها فطلقها ثلاثا مجموعة او مفرقة حرمت عليه بعدهن حتى تنكح زوجا غيره كما كانوا مملكين عتق رقيقهم فإن اعتق واحدا او مائة في كلمة لزمه ذلك كما يلزمه كلها جمع الكلام فيه او فرقه.

تکملہ شرح المہذب (270/20) میں ہے:

إذا طلق الحر امرأته ثلاثا، أو طلق العبد امرأته طلقتين بانت منه وحرم عليه استمتاعها والعقد عليها حتى تنقضي عدتها عنه بتزوج غيره ويصيبها ويطلقها، أو يموت عنها وتنقضي عدتها منه وهذا صحيح كل زوج وقع طلاقه على كل زوجة من صغيرة أو كبيرة عاقلة أو مجنونة إذا استكمل طلاقها ثلاثا مجتمعة أو متفرقة قبل الدخول أو بعده فهي محرمة عليه حتى تنكح زوجا غيره ، ويدخل بها الثاني، فتحل بعده للأول بعقد الثاني وإصابته ، وهو قول الجماعة

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved