• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

انٹرنیٹ کے ذریعے کمائی کا ایک طریقہ

استفتاء

آج کل انٹر نیٹ پر وسیع پیمانے پر کلِک کے ذریعے کمائی کا ایک کام ہو رہا ہے۔ جس سے ایک دنیا وابستہ ہے۔ اس کاروبار یا کام کا پس منظر اور طریقہ کار سمجھنے کے لیے ہمیں سادہ انداز کی تشہیر کو پیش نظر رکھنا پڑے گا۔

کاروبار کا دستور ہے کہ جو شخص کوئی چیز یا خدمت فراہم کرتا ہے اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ میرا کاروبار پھیلے اور اس کے زیادہ سے زیادہ گاہک پیدا ہوں۔ اس مقصد کے لیے دیگر ذرائع کے ساتھ ساتھ ایک اہم اور بنیادی ذریعہ اشتہار بازی یا تشہیر کا ہے، اشتہارات کے لیے آج کل ایک تو بالکل سادہ طریقے سے سائن بورڈ کی شکل ہوتی ہیں جو بڑی شاہراہوں اور چوک چوراہوں پر ہوتی ہیں۔جس جگہ جتنے زیادہ لوگوں کی آمد ورفت ہو اور لوگوں کے دیکھنے کے امکانات زیادہ ہوں اس جگہ کو تشہیر کے نقطہ نگاہ سے ترجیح دی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ میڈیا کی دونوں قسموں الیکٹرانک (ٹی وی، ریڈیو، موبائل فون) اور پرنٹ میڈیا یعنی اخبار اور رسالوں میں بھی اشتہار لگوائے جاتے ہیں۔ رسالے اور اخبار جس قدر لوگوں میں زیادہ مقبول ہوں اور زیادہ دیکھے اور پڑھے جاتے ہوں ان میں لگنے والا اشتہار اس تناسب سے زیادہ مہنگا  ہو گا ۔ اور اس رسالے کو زیادہ اشتہار ملیں گے۔ اسی وجہ سے اخبار اور رسالے والے

اپنی سرکولیشن (تعداد اشاعت) زیادہ بتا کربھی اشتہار لیتے ہیں۔کلک کے ذریعے کمائی کا پس منظر بھی اسی طرح سمجھنا چاہیے۔

انٹرنیٹ آج کل ذرائع مواصلات میں ایک تیز، وسیع اور تقریباً ہر شخص کی رسائی میں میڈیا کا ایک شعبہ ہے۔ انٹرنیٹ پر کام ویب سائٹ کی شکل میں ہوتا ہے۔ گویا کہ اس دنیا کے رسالے اور اخبار ویب سائٹ ہی ہیں۔ کوئی ویب سائٹ جتنے زیادہ لوگ دیکھتے ہیں وہ ویب سائٹ اتنی زیادہ مقبول شمار ہوتی ہے۔

اب یہاں ذرا ایک اور بات سمجھ لی جائے کہ گوگل مثلاً ایک براوزر ہے اور سرچ انجن ہے اصل میں تو یہ بھی ایک ویب سائٹ ہی ہے لیکن اس کا بنیادی مقصد اور کام یہ ہے کہ آپ کو انٹرنیٹ پر پھیلی ہزاروں ویب سائٹوں میں سے ایک اپنی متعلقہ ویب سائٹ تلاش کر دے گا۔ آپ کوئی لفظ بھی اس پر لکھیں گے تو اس لفظ سے متعلق جتنا مواد ہو گا اور جتنی ویب سائٹس ہوں گی وہ آپ کے سامنے ترتیب سے رکھ دے گا۔ مثلاً آپ نے قرآن پاک سے متعلقہ کوئی چیز تلاش کرنی ہے تو آپ گوگل پر جا کر لکھیں وہ ایک منٹ میں قرآن سے متعلق سیکڑوں ویب سائٹس آپ کے سامنے کر دے گا۔ لیکن یہاں یہ نکتہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ گوگل ان سائٹوں کی ترتیب ریٹنگ (مقبولیت) کے حساب سے لگاتا ہے۔ جس ویب سائٹ کی ریٹنگ سب سے زیادہ ہو اسے سب اوپر پھر درجہ بدرجہ چلتا ہے۔

ایک عام ناظر جب گوگل پر کچھ سرچ کرے گا تو وہ لا محالہ پہلی دو تین ویب سائٹس کو ضرور دیکھے گا جس سے ان ویب سائٹس کی ناظر تک رسائی یقینی اور زیادہ ہوتی ہے۔اورپھرجس ویب سائٹ کی ریٹنگ زیادہ ہو گی اس کو مختلف کمپنیوں اور اداروں کی طرف سے اشتہار بھی زیادہ اور مہنگے ملیں گے۔ اور خود اس ویب سائٹس پر جو مواد رکھا گیا ہے وہ بھی زیادہ لوگ دیکھیں گے۔ کسی سائٹ کو اشتہار دینے سے پہلے کمپنی اس کی گوگل پر سرچ کر کے بآسانی مقبولیت کا اندازہ لگا سکتی ہے۔

اس طریقے سے ویب سائٹس پر اشتہار کا سارا مدار اس کی مقبولیت اور ریٹنگ پر آجاتا ہے۔ اس مقبولیت کے حصول کا ایک تو اصل اور فطری طریقہ ہے کہ آپ اپنی ویب سائٹس لانچ کر دیں آپ کی سائٹ کی قدر و قیمت کی وجہ سے لوگ ا سے خود ہی واقف ہو کر اس کا وزٹ کرنا شروع کر دیں گے۔ یا تھوڑی بہت دیگر ذرائع جیسے ریڈیو، ٹی وی و اخبار وزٹنگ کارڈ کے ذریعے تشہیر کر کے لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا جا سکتا ہے لیکن اس صورت میں سائٹ کی اصل ساکھ بنتے بنتے ایک زمانہ لگ سکتا ہے۔ آج کل کے ترقی یافتہ، تیز رفتار اور بے صبری کے زمانے میں ویب سائٹ کی رینٹنگ بڑھانے اور اسے گوگل کی فرنٹ پیج کی سرچ میں لانے اور پھر اس کو برقرار رکھنے کے لیے فرضی اور کرائے کے ناظر پیدا کیے جاتے ہیں۔ یہ کرائے کے ناظر وہ بے روزگار یا نیم روزگاری نوجوان طبقہ ہوتا ہے جو انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں ان کو یہ ٹاسک دیا جاتا ہے کہ ہماری سائٹ کو مقبول بنانے کے لیے آپ اس کا وزٹ کرو۔ ایک آدمی (IP Address) چوبیس گھنٹے میں ایک سے زیادہ وزٹ نہیں کر سکتا اگر کرے بھی تو اس سے ریٹنگ میں فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے ایک سائٹ کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے بیک وقت درجنوں آدمی مہیا کرنے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ وزٹ کرنے کے کچھ پیسے ملتے ہیں۔ کرائے کا ناظر صرف ایک ہی سائٹ کو وزٹ نہیں کرتا بلکہ اس کے پاس ایسی درجنوں ویب سائٹس ہوتی ہیں جنہیں وہ دن میں بس ایک دفعہ کچھ کم از کم سیکنڈ کے لیے وزٹ کرتا ہے۔واضح رہے کہ ان ناظرین کو فی الواقع ان ویب سائٹس سے دلچسپی نہیں ہوتی ،اس لیے بہت سے ناظر تو انہیں ایک دفعہ کھول کر اپنے کام میں لگے رہتے ہیں ۔جب مقررہ وقت (مثلاتیس سیکنڈکادورانیہ)پورا ہوجاتاہے تو وہ اسے بند کردیتاہے ۔ان ویب سائٹس کو عملا آنکھوں سے دیکھنا بھی ضرور ی نہیں ہوتا

بس ان کا کمپیوٹر کی سکرین پر اوپن ہوجانا ہی کافی ہوتاہے ۔

کام کے پھیلاؤ اور روابط کی سہولت کے لیے دنیا کے دیگر کاموں کی طرح یہاں بھی ناظر اورویب سائٹ کے مالک کے درمیان مڈل مین کام کرتے ہیں ان مڈل مینوں کی انٹرنیٹ پر باقاعدہ کمپنیاں ہیں۔ یہ مڈل مین کمپنیاں سائٹ کے مالک اور ناظر کے درمیان معاملہ کراتی ہیں یہی کمپنیاں ایسے کرائے کے ناظروں کو کچھ فیس (عموماً 5 سے 10 ہزار کے درمیان) لے کر ان کو اپنے ہاں رجسٹرڈکرتی ہیں اور انہیں پھر ٹھیکے پر کام دیتی ہیں۔ ان کے پاس آرڈر آ جاتا ہے کہ فلاں فلاں سائٹ کو وزٹ کرو۔ اس وزٹ کو کلِک کرنا بھی کہہ سکتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ انٹرنیٹ سے وابستہ بعض تجربہ کار لوگوں کایہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح کی کمائی کی آفرکرنے والی اور لوگوں کورجسٹرڈ کرنے والی (مڈل مین )کمپنیوں میں ایک معتدبہ تعداد ایسی کمپنیوں کی ہے جو لوگوںکو جھانسہ دیکر رجسڑیشن فیس کی صورت میں پیسے بٹورنے کا کام کرتی ہیں ۔یہ کمپنیاں کچھ عرصے کے لیے تو پیسے دیتی ہیں لیکن اس کے بعد رفو چکر ہوجاتی ہیں اور چونکہ یہ ساراکام آن لائن ہی ہوتاہے اس لیے ان کاپیچھاکرنابھی ممکن نہیں ہوتا۔یہی بھگوڑے لوگ بیک وقت کئی کئی ناموں سے کام کررہے ہوتے ہیں اس لیے انہیںایک سائٹ بندکرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

اہل علم حضرات کلِک کمائی کے پس منظر کو سمجھ چکے ہوں گے۔ اس کے روشنی میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ کام جائز ہے یا نا جائز ؟

نوٹ: بعض ریٹنگ کمپنیاں حلال اور جائز کاموں پر مشتمل ویب سائٹ (مثلاً حلال فوڈ وغیرہ) کے دیکھنے کا کام مہیا کرتی ہیں اور بعض ملا جلا بھی دیتی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ طریقے سے کمائی کرنا درست نہیں۔ کیونکہ ویب سائٹس کو دیکھنا ایسا عمل نہیں جس پر اجارہ ہو سکے۔ نیز اس صورت میں دھوکہ دہی اور غلط بیانی بھی شامل ہے، کیونکہ اشتہار دینے والی کمپنیاں حقیقی مقبولیت کوسامنے رکھ کر اشتہار دیتی ہیں جبکہ یہاں ایسے لوگ ویب سائٹس کو دیکھتے ہیں جن کو اس سائٹ سے فی نفسہ کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved