• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اس سے کہو اپنی بہن کو لیتا جائے میں نے نہیں رکھنا اسے، اور شدید غصے میں طلاق

استفتاء

شوہر کو اپنی بہن کے ساتھ اپنے سالے کے غلط تعلقات کا شک تھا۔ ابھی گذشتہ جمعہ کے دن شوہر نے اپنی بہن کو اسی شک کی بنا پر اپنے سالے کے سامنے کمرے میں تھپڑ مارا جبکہ اس کی بیوی اس وقت وہاں کمرے میں موجود نہ تھی، تو سالے نے کہا ’’ تو اسے نہ مار ‘‘ بہن نے کہا۔ ’’ کہ تو خاموش رہ ہمارا آپس کا یعنی بہن بھائیوں کا معاملہ ہے تو ہمارے درمیان دخل نہ دے ‘‘۔ شوہر نے سالے سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’ سالہ تو کون ہوتا ہے ہمارے درمیان بولنے والا؟ ‘‘۔ اس نے کہا میں تیرا سالہ نہیں تو شوہر نے کہا اگر تو میرا سالہ نہیں تو پھر کون ہے چل دفعہ ہو یہاں سے۔ اس کے بعد وہ چلا گیا تو شوہر نے اونچی آواز سے ( جبکہ وہ جاچکا تھا) کہا کہ ’’ اس سے کہو کہ اپنی بہن ( شوہر کی بیوی) کو بھی لیتا جائے میں نے نہیں رکھنا اسے ‘‘۔ کمرے میں موجود ماں وغیرہ نے بھی یہ الفاظ سنے۔ شوہر نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں کہے تھے ایک تو سخت غصے میں تھا دوسرا اپنے سالے کو احساس دلانے کے لیے کہے تھے۔

اس کے بعد شوہر اپنی بہن کو مارنے لگ گیا جب بیوی جو کہ کمرے سے باہر تھی کو پتہ چلا کہ میرا شوہر اپنی بہن کو مار رہا ہے تو اس نے اپنی ساس کو جو کہ دوسرے کمرے میں تھی جاکر لیٹ گئی تھی، بتلایا کہ یہ صورتحال ہے تو شوہر کی ماں اور اس کی بیوی اس کمرے میں آئے جہاں شوہر اپنی بہن کو مار پیٹ رہا تھا تو بیوی نے آگے بڑھ کر شوہر سے کہا کہ تو اسے نہ مار تو شوہر نے بیوی کو دھکہ دیتے ہوئے کہا تو سائڈ پر ہٹ جا ہمارا آپس کا معاملہ ہے۔

پھر کچھ دیر بعد شوہر کی خالہ بھی ادھر آگئی، شوہر اس دوران بھی بہت غصے تھا خالہ نے پکڑ کر اسے ایک جانب کردیا نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ شوہر کی طبیعت بڑے غصے والی ہے، جب اسے غصہ چڑھتا ہے تو بہت ہی غصہ چڑھتا ہے، ایک قسم کا پاگل ہی ہوجاتا ہے ( یہ بات اس کی ماں، خالہ وغیرہ کو اچھی طرح معلوم ہے) پھر اسے کوئی پتہ نہیں ہوتا ہے کہ کیا کہہ رہا ہے؟ اور کیا کر رہا ہے؟ چنانچہ جب خالہ نے پکڑ کر ایک جانب کر دیا تو شوہر قریب ہی دیوار میں اپنا سر مارنے لگا اور کہہ رہا تھا کہ یا تو میں خود مر جاؤں گا یا اپنی بہن کو مار دوں گا۔ تقریبا تین یا چار مرتبہ پوری طاقت سے شوہر نے اپنا سر دیوار میں مارا تو اس کی بیوی،ماں اور خالہ نے اسے پکڑا اور کہا کہ تو ایسے مت کر یعنی اپنا سر دیوار میں مت مار۔ یہ صورتحال دیکھ کر اس کی بہن بھی اس کے قدموں میں گر گئی تو اس دوران شوہر کی بیوی اور ماں و خالہ اسے چھوڑ کر ایک طرف ہوگئیں۔ بہن اپنے بھائی کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگی اور کہنے لگی کہ تو ایسا مت کر یعنی سر دیوار میں مت مار تو شوہر انتہائی غصے کی حالت میں ہونے کی وجہ سے دوبارہ بہن کو مارنے لگا اور اس دوران اس نے تین دفعہ لفظ ’’ طلاق، طلاق، طلاق ‘‘کہا۔ شوہر نے ان الفاظ کو نکالتے ہوئے نہ اپنی بیوی کو مخاطب کیا جو قریب ہی ایک سائیڈ پر کھڑی تھی نہ اس کی طرف دیکھا نہ اس کی طرف اشارہ کیا اور نہ ہی اس کی طرف نام لے کر کہا۔ اس موقع پر موجود شوہر کی ماں، خالہ، بہن وغیرہ اس بات کے گواہ ہیں۔ شوہر کا بیان یہ ہے کہ جب اس نے یہ الفاظ کہے تھے تو اس کے دل و دماغ میں بھی یہ تصور و نیت نہیں تھی کہ وہ  اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہے۔ وہ اس بات کو اللہ  کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہے کہ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ میرے منہ سے کیا الفاظ نکل گئے اور نہ  ہی اس نے بیوی کو ان الفاظ سے طلاق دینے کی نیت تھی۔

چونکہ اس کی بیوی اور اس کی ماں بھی قریب ایک جانب میں کھڑی تھیں تو وہ دونوں یہ الفاظ سن کر اونچی اونچی آواز سے رونے لگ گئیں۔ ان دونوں کی رونے کی آواز سن کر شوہر ان کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے سوچا یہ کیوں رو رہی ہیں؟ پھر اس نے دماغ پر زور ڈالا تو احساس ہوا کہ اس کے منہ سے یہ الفاظ یعنی طلاق، طلاق، طلاق نکل گئے ہیں۔ لیکن شوہر بالکل مطمئن تھا کہ اس نے طلاق نہیں دی اور نہ ہی اس نے یہ الفاظ اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نیت سے کہے ہیں، نہ ہی ان الفاظ سے بیوی کی دل و دماغ میں نیت کی تھی۔ اس سارے واقعہ میں شوہر کا چھوٹا بھائی موجود نہ تھا۔ ا س لڑائی جھگڑے کے کافی دیر بعد جب وہ گھر آیا تو شوہر نے اپنے چھوٹے بھائی کو بطور خبر و حکایت کے سارے واقعے کی صورتحال بتائی۔ اور یہ بھی بطور اخبار و حکایت کے بتایا ’’ میں نے تیری بھابھی کو ( بیوی اور ماں کے گمان کے مطابق، کیونکہ وہ دونوں تو یہ ہی سمجھ رہی تھیں کہ اس طرح طلاق ہوجاتی ہے) طلاق دے دی ہے اور بہن کو جان سے مار دینے کا ارادہ ہے، تیری کیا رائے ہے؟ ‘‘یہ الفاظ شوہر نے بیوی و ماں کے گمان کے مطابق بطور خبر کے بتلائے تھے۔ وہ اس وقت بھی اور اب بھی مطمئن ہے کہ اس نے بیوی کو طلاق نہیں دی اور نہ ہی ان الفاظ سے اپنی بیوی  کو طلاق دینے کی نیت کی تھی اور نہ ہی اسے ان الفاظ کا پتہ تھا کہ اس نے یہ الفاظ نکالے ہیں۔ اس وقت انتہائی غصے میں ہونے کی وجہ سے اور نہ ہی بیوی سے اس کا کسی قسم کاجھگڑا تھا۔ تقریباً دو دن تک شوہر بالکل مطمئن تھا کہ اس نے طلاق نہیں دی، لیکن ماں وغیرہ نے کہا کہ اس بارے میں پوچھ کر تحقیق بھی کرلے کہ اس طرح طلاق ہو بھی جاتی ہے یا نہیں؟

لہذا اب بتلائے کہ اس مذکورہ صورت حال میں طلاق مغلظہ ہو چکی ہے یا نہیں؟ اور اب میاں بیوی دونوں کے لیے کیا کیا شرعی احکام ہیں؟ آسان الفاظ میں باحوالہ مدلل تفصیلاً تحریر فرمادیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائنہ واقع ہوئی ہے۔ اگر دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ آئندہ کے لیے خاوند کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہوگا۔

توجیہ: خاوند کے یہ الفاظ ’’ کہ اس سے کہو اپنی بہن کو لیتا جائے میں نے نہیں رکھنا اسے ‘‘یہ کنایہ کی قسم ثالث ہیں جن سے حالت غضب میں بلانیت بھی طلاق ہوجاتی ہے۔

اس کے بعد اس نے ’’ طلاق، طلاق، طلاق ‘‘کے جو الفاظ بولے ہیں وہ غضب کی ایسی حالت میں بولے ہیں جس میں وہ زائل العقل تھا، اس لیے وہ موثر نہیں ہوئے۔ اور بھائی کے سامنے بولے گئے یہ الفاظ’’ کہ میں نے تمہاری بھابھی کو طلاق دیدی ہے ‘‘ چونکہ خبر پر محمول ہوسکتے ہیں کہ پہلے کنایہ الفاظ میں طلاق موجود ہے، اس لیے ان سے مزید کوئی طلاق نہ ہوگی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved