• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"جاجا تو بیوی کتھوں رہ گئی ایں ہن” کہنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

ہم نے آپ سے طلاق کے الفاظ کے متعلق فتوی نمبر28/64 لیا تھا اس فتوی کے بعد میاں بیوی نے دوبارہ نکاح کرلیا تھا لیکن میاں بیوی کے درمیان اختلاف اور جھگڑا چلتا رہا اور آخر کار شوہر نے9جون2023 کو لڑائی کے دوران جب بیوی نے کہا کہ”توں اپنے بیوی بچیاں نو ذلیل کیتا وے”(تو نے اپنی بیوی، بچوں کو ذلیل کیا ہے)  تو جواب میں شوہر نے بیوی سے کہا "جاجا تو بیوی کتھوں رہ گئی ایں ہن”(جاؤ جاؤ تم بیوی کہاں رہی ہو) شوہر اس وقت غصے کی حالت میں تھے اور اس کے بعدبیٹے کے سمجھانے پر شوہر نے اپنی قمیص بھی پھاڑ دی۔سب بچے وہاں موجود تھے جنہوں نے یہ الفاظ سنےاور یہ الفاظ موبائل میں ریکارڈنگ کی صورت میں بھی موجود ہیں۔اب آپ بتادیں کہ کیا تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟بیوی کے لئے کیا حکم ہے؟شوہر کافی دنوں سے سب کو کہتا پھر رہا ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو چھوڑ دینا ہےاور وہ اپنی عادت کے مطابق جھوٹی قسمیں بھی کھاتا ہے۔

شوہر کا بیان :

میں نے یہ الفاظ نہیں کہے(پھر جب شوہر سے کہا کہ ان الفاظ کی ریکارڈنگ بھی موجود ہےتو پھر اس نے کہا)میں نے یہ الفاظ کہے بھی ہوں تو ان الفاظ سے میری طلاق کی نیت نہیں تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر اپنی بیوی کے سامنے یہ قسم دیدے کہ میری مذکورہ الفاظ سے طلاق  کی نیت نہیں تھی تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگر قسم دینے سے انکار کردے تو بیوی  اپنے حق میں طلاق سمجھنے کی پابند ہوگی اور چونکہ دو طلاقیں پہلے بھی ہوچکی ہیں اس لیے بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہ ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ الفاظ کنایات طلاق کی دوسری قسم میں سے ہیں جن سے غصے کی حالت میں کہنے سے بھی طلاق کا واقع ہونا شوہر کی نیت پر موقوف ہوتا ہے۔یعنی اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے یہ الفاظ کہے ہوں تو طلاق واقع ہوتی ہے ورنہ نہیں اور شوہر کے بیان کے مطابق اس کی طلاق کی نیت نہیں تھی البتہ طلاق کی نیت نہ ہونے کی صورت میں شوہر کا بیوی کے سامنے  طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم دینا ضروری ہوگا ورنہ بیوی اپنے حق میں طلاق سمجھنے کی پابند ہوگی۔

فتاوی عالمگیری (1/ 356)میں ہے:

امرأة قالت لزوجها طلقني فقال لها ‌لست ‌لي ‌بامرأة قالوا هذا جواب يقع به الطلاق ولا يحتاج إلى النية.

درر الحكام شرح غرر الاحكام(1/ 370)میں ہے۔

(‌لست ‌لي ‌بامرأة) يعني أن قول الزوج لامرأته ‌لست ‌لي ‌بامرأة.(و) كذا قوله لها أنا (لست لك) بزوج (طلاق بائن إن نواه)

الدر المختار  (4/521)میں ہے۔

والقول ‌له ‌بيمينه ‌في ‌عدم ‌النية، ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم،فإن نكل فرق بينهما.مجتبي.

امداد المفتیین(ص:523)میں ہے۔

اسی طرح جو الفاظ شعر میں ہیں کہ (تو میری بیوی نہیں میں تیرا شوہرنہیں)یہ الفاظ بھی کنایہ ہی ہیں کما  فی العلگیرية: ولو قال ما انت لی بامراة ولست لک بزوج ونوی الطلاق یقع عند ابی حنیفة. خلاصہ یہ ہے کہ اگر مسمی حبیب نےطلاق کی نیت کی یا ذکر طلاق کے وقت یہ الفاظ بولےتو ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی ورنہ نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم     

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved