• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جان بوجھ کر طلاق لفظ كا غلط (بجائے طلاق کے کالاق)ادا کرنا

استفتاء

میں نے جو لکھا خدا کو حاضر ناظر جان کر لکھا، یہ میرا حلف نامہ ہے۔

گذارش ہے کہ میرا مسئلہ حل کر دیں۔ میرا بیوی کے ساتھ کچھ عرصے پہلے گھر میں کسی بات پر جھگڑا ہو گیا تھا۔ اور میں نے غصے میں آکر لفظ ڈرانے کے لیے دو  دفعہ ’’کالاق‘‘ کہا۔  میرے گھر والے بھی موجود تھے، اور انہوں نے یہ لفظ سن لیا، اور محلے میں بھی بات پھیلا دی ہے۔ اور اب محلے دار اور گھر والے تنگ کرتے ہیں۔ برائے مہربانی آپ فتویٰ دیں کہ  طلاق ہوئی یا نہیں۔

میں نے دو دفعہ  ’’کالاق‘‘ کا لفظ استعمال کیا، خود ’’کالاق‘‘ بولا، تاکہ طلاق نہ ہو۔

نوٹ: مستفتی سے فون پر بات ہوئی تو وہ ’’کالاق‘‘ کا تلفظ ’’کلاق‘‘ کر رہا تھا۔

بیوی کا حلفیہ بیان

میں حلفاً اقرار کرتی ہوں کہ میں نے جب سنا تو پہلے دو بار طلاق کا لفظ سنا، مگر آخر میں کلاق کا لفظ لگا۔

بہن کا حلفیہ بیان

میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتی ہوں ان دونوں کی لڑائی کے وقت میں ان کے پاس موجود تھی، میں نے یہ سنا دو دفعہ طلاق یا

ایک دفعہ، اور ایک دفعہ یا دو دفعہ ’’قلاق‘‘ کے لفظ۔ میں ***کی بڑی بہن ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں دو طلاقیں ہو گئیں ہیں،  جن کا حکم یہ ہے کہ اگر ابھی تک عدت نہ گذری ہو تو میاں بیوی زبانی یا عملی رجوع کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اور اگر عدت گذر گئی ہے تو دوبارہ نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ نکاح میں مہر اور گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔

يادرہے شوہر کے لیے  آئندہ صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے۔ لہذا اگر شوہر نے آئندہ ایک طلاق دی تو بیوی شوہر  پر بالکلیہ حرام ہو جائے گی۔

توجیہ: طلاق کے مسائل میں بیوی کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ اپنے سنے ہوئے الفاظ کا اعتبار کرے۔ مذکورہ صورت میں بیوی نے جو الفاظ سنے ہیں، ان میں پہلے دو لفظ طلاق کے بارے میں صریح ہیں، لہذا ان دو لفظوں سے بیوی کے حق میں دو رجعی طلاقیں واقع ہو گئیں۔ اور تیسرے لفظ کے بارے میں  بیوی کو شک ہے کہ وہ ’’طلاق‘‘ کا لفظ تھا، یا ’’کلاق‘‘ کا لفظ تھا۔ اور لفظ میں شک کی وجہ سے خود طلاق میں بھی شک ہو گیا کہ وہ تین ہوئیں یا دو ہوئیں، اور شک کی صورت میں جو یقینی ہیں (یعنی کم) ان پر عمل کیا جائے گا۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

شك أ طلق واحدة أو أكثر بنى على الأقل، وفي الرد: إلا أن يستيقين بالأكثر أو يكون أكبر ظنه. (4/496، بيروت)

اگر کسی کو یہ اشکال ہو کہ تیسری دفعہ کا لفظ اگر ’’کلاق‘‘ بھی ہو تو پھر بھی  بیوی کے حق میں اس لفظ سے طلاق ہو جانی چاہیے۔ کیونکہ یہ لفظ ، الفاظ مصحفہ میں سے ہے، اور الفاظ مصحفہ سے قضاء ً طلاق واقع ہو جاتی ہے، جيسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے:

وأما الطلاق فيقع بها [أي بالألفاظ المصحفة] قضاءً. (4/496)

اور بیوی قضاء کے مسائل میں بمنزلہ قاضی کے ہوتی ہے۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه. (4/449، طبع بيروت).

اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ لفظ ’’کلاق‘‘ اردو زبان میں طلاق کے الفاظ مصحفہ میں سے نہیں ہے۔ کیونکہ طلاق کے الفاظ مصحفہ سے مراد طلاق کے  وہ الفاظ ہیں جنہیں بعض عامی لوگ طلاق کے لیے بگاڑ کر استعمال کرتے ہیں، گویا کہ وہ الفاظ طلاق کے لیے اغلاط العوام کی قبیل سے ہوتے ہیں، جیسے اردو میں بعض عامی لوگ ’’مسجد‘‘ کو ’’مہجت‘‘ کہتے ہیں، عامی لوگوں کے نزدیک ’’مہجت‘‘ کا لفظ مسجد کے لیے صریح ہے۔  جبکہ ’’کلاق‘‘ کا لفظ اردو  زبان میں طلاق کے لیے بگڑے ہوئے لفظ کے طور پر استعمال نہیں ہوتا۔اسی لیے علامہ شامی رحمہ اللہ نے طلاق کے الفاظ مصحفہ کو طلاق کے صریح الفاظ میں داخل کیا ہے۔ چنانچہ شامی میں ہے:

ويقع بها أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح … ويدخل نحو طلاغ وتلاغ … واحدة رجعية. (4/446)…………………………………… فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved