• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جبراً زبانی اور تحریری طلاق میں فرق

استفتاء

سوال: کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ جبراً طلاق دلوانے یا لکھوانے سے طلاق واقع ہوتی ہےیا نہیں اور جبرکی تعریف کیا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

صورت مسئولہ میں جبراً طلاق دلوانے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے البتہ جبراً طلاق لکھوانے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ بشرطیکہ لکھتے وقت زبان سے کچھ نہ کہا جائے، اگر لکھتے وقت زبان سے الفاظ ِ طلاق ادا کئے تو پھر طلاق واقع ہوجائے گی نیز اصطلاحِ شریعت میں جبراً طلاق کی تعریف یہ ہے کہ دھمکی دینے والا جان سے مار ڈالنے یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دے اور وہ اس پر قادر ہو اور جس کو دھمکی دی جارہی ہے اس کو یقین ہو یا غالب گمان ہو کہ اگر میں  نے طلاق نہ دی تو مجھے مار دیا جائے گا یا کوئی عضو تلف کردیا جائے گا تو ایسی طلاق کو جبراً طلاق کہتے ہیں ۔

لما فی سنن ابی داؤد : (۲۹۸/۱)

عن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: ثلاث جدهن جد وهزلهن جد النكاح والطلاق والرجعة.

وفی الهندیة: (۳۵۳/۱)

فصل فيمن يقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه يقع طلاق كل زوج إذا كان بالغاً عاقلاً سواء كان

حراً أو عبداً طائعاً أو مكرهاً كذا في الجوهرة النيرة.

وفیه أیضاً (۳۷۹/۱)

رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان.

وفی الشامیة (۲۳۶/۳):

هذا وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية.

……………………………………………………. والله اعلم بالصواب

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved