• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جبراً طلاق نامہ پر دستخط

استفتاء

سوال:- میرے شوہر کی عمر ۵۵ سال اور میری عمر ۴۷ سال ہے ، دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں ، چار نواسے نواسیاں ہیں ، بیٹا بھی ماشاء اللہ شادی کے قابل ہے ، ہم دونوں میاں بیوی میں معمولی سی بات پر جھگڑا ہوا اور بحث و تکرار کے بعد میں بضد تھی کہ وہ مجھے طلاق دیں ؛ لیکن میرے شوہر اس کے لئے بالکل ہی تیار نہیں تھے ، بیوی نے اپنے ہاتھ سے تحریر لکھی کہ میں تمہیں تین طلاق دیتا ہوں ، اور ان سے دستخط کرنے کے لئے کہا ؛ لیکن شوہر ہرگز تیار نہیں تھے ، دستخط کرنے کے لئے ، لیکن میں نے بہت زور ڈالا ، اس کے باوجود بھی وہ تیار نہیں تھے ، آخر کار میں گلے میں دوپٹہ پھنساکر ان سے زبردستی دستخط کے لئے کہا ، انھوں نے ڈر و خوف کے مارے دستخط کردیئے ، اب میرے شوہر کا یہ کہنا ہے کہ وہ اللہ کو حاضر و ناظر جان کر کہتے ہیں کہ میرے دل سے ہرگز طلاق دینے کا نہیں تھا ، محض تمہاری جان بچانے کے لئے ایسا کیا ، مقامی مفتیوں نے بھی کہا کہ یہ طلاق واقع نہیں ہوئی ؛ لیکن میرا ضمیر مطمئن نہیں ، مہربانی فرماکر آپ اس مسئلہ کا شرعی حل بتائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اول تو یہ بات یاد رکھئے کہ جیسے مرد کے لئے کسی مناسب سبب کے بغیر طلاق دینا گناہ ہے ، اسی طرح عورت کے لئے کسی معقول وجہ کے بغیر طلاق کا مطالبہ کرنا سخت منع ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ایسی عورتوں کے بارے میں جو اس طرح طلاق کا مطالبہ کرے ، فرمایا کہ وہ جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہیں گی :

’’أیما امرأۃ اختلعت من زوجها من غیر بأس لم ترح رائحة الجنة.‘‘ ( ترمذی ، باب ماجاء فی المختلعات ، حدیث نمبر : ۱۱۸۶)

اس لئے معمولی سے جھگڑے کی بناپر طلاق کا مطالبہ گناہ کی بات ہے اور جب خاندان کی عمر دراز عورتیں اس طرح کی حرکتیں کریں گی تو بیٹیوں اور بہوؤں پر بھی اس کا اثر پڑے گا ؛ اس لئے طے کرلیجئے کہ پھر آئندہ طلاق و خلع کا لفظ اپنی زبان پر نہ لائیں گے — شوہر کے طلاق نامہ پر دستخط کرنے کی دو صورتیں ہیں : ایک یہ کہ بیوی سامنے موجود تھی ؛ لیکن اس نے صرف دستخط کیا ، زبان سے کچھ نہیں کہا ، تو اس صورت میں شوہر کو مجبور کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو ، طلاق واقع نہیں ہوگی ؛ کیونکہ جب بیوی موجود ہو اور زبان سے طلاق دی جاسکتی ہو تو صرف لکھ دینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی ، اور اگر بیوی سامنے موجود نہ ہو اور شوہر کو طلاق لکھنے یا دستخط کرنے پر مجبور کردیا گیا ہو ؛ لیکن زبان سے اس نے طلاق کے الفاظ نہیں کہے ، تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی ، دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر نے زبان سے طلاق کے کلمات کہے تو چاہے مجبوری کی وجہ سے طلاق کے کلمات کہے ہوں یا بغیر مجبوری کے ، ہر دو صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی :

’’ وقید بکونه علی النطق لأنه لو أکره علی أن یکتب طلاق امرأته، فکتب لا تطلق لأن الکتابة أقیمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، کذا فی الخانیة.‘‘ (البحر الرائق ، کتاب الطلاق : ۳؍۲۶۴)

بہر حال آپ نے جو صورت لکھی ہے ، اس کے مطابق شوہر کے طلاق نامہ پر دستخط کرنے کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں طلاق پر مجبور بھی کیا گیا، اس لیے بدرجۂ اولیٰ طلاق واقع نہیں ہو گی۔

سوال: حضرت مفتی صاحب ان دونوں سوال و جواب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

پہلا مسئلہ ٹھیک ہے۔

دوسرے مسئلے میں مندرجہ ذیل امور قابل توجہ ہیں:

  ’’بیوی کی موجودگی میں اگر شوہر نے طلاق نامے پر بغیر جبر کے بھی دستخط کیے تو طلاق واقع نہ ہو گی‘‘ درست نہیں بلکہ درست بات یہ ہے کہ بیوی کی موجودگی اور غیر موجودگی سے اس میں فرق نہیں پڑتا۔

2۔ مجیب نے مذکورہ صورت کو اکراہ میں داخل کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ صورت اکراہ کی نہیں بنتی، کیونکہ مذکورہ صورت میں بیوی نے اپنے گلے میں دوپٹہ پھنسا کر شوہر سے مذکورہ تحریر پر دستخط لیے ہیں جس کی وجہ سے شوہر کو یہ خطرہ اور خوف تو تھا کہ کہیں بیوی خود کشی نہ کر لے لیکن اپنی جان پر کوئی خوف اور خطرہ نہ تھا حالانکہ مجبور اور مکرہ ہونے کے لیے اپنے اوپر خوف اور خطرہ ہونا ضروری ہے نہ کہ دوسرے پر۔

3۔ مذکورہ صورت میں عورت نے جو تحریر لکھی وہ مرسوم تھی یا غیر مرسوم؟ اس کی تنقیح لینا ضروری تھا۔ مجیب نے یہ تنقیح قائم کیے بغیر جواب جاری کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved