• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جہیز اور ولیمے کا حکم

استفتاء

1.جہیز کی اسلامی حیثیت کیا ہے؟

2.جہیز لینا جائز ہے  یا نہیں؟

3.ولیمہ کرنا لازمی ہے؟ اگر کوئی شخص ولیمہ نہیں کرتا  تو کیا نکاح پر کوئی اثر پڑتا ہے؟

4.ولیمہ کے لیے کم از کم دعوت کیا ہونی چاہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-2. رسم ورواج سے  ہٹ کر    اپنی مالی حیثیت اور بیٹی کی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے والدین شادی کے موقع پر  اپنی خوشی سے بیٹی کو اس کی ضرورت کی اشیاء دیں تو اس کا دینا  اور لینا جائز ، بلکہ مستحب ہے۔ تاہم اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ نہ تو جہیز دینے میں غلو(ہمت سے زیادہ جہیز دینے) سے کام لیا جائے اور نہ ہی جہیز کی وجہ سےبیٹیوں کو  وراثت سے محرو م کیا جائے اور نہ ہی خلاف شرع چیزیں جہیز میں دی جائیں۔

3.ولیمہ کرنا سنت ہے، فرض یا واجب نہیں۔ ا سکے چھوڑ دینے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

  1. ولیمے کے لیے کوئی کم از کم مقدار متعین نہیں۔ ایک قول کے مطابق مال دار کے لیے کم از کم ایک بکری پکانا مستحب ہے۔ نیز ولیمے میں مستحب یہ ہے کہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق  دعوت ہو جس میں امیر غریب کی تفریق کے بغیر اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کو بلایا جائے۔

(1)مسند احمد  (1/464) میں ہے:

عن علي: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما زوجه فاطمة بعث معه بخميلة ووسادة من أدم حشوها ليف ، ورحيين وسقاء وجرتين.

ترجمہ: حضرت علیؓ سے روایت ہے : جب نبی کریم ﷺنے حضرت فاطمہؓ کی شادی میرے ساتھ کی تو جہیز میں ساتھ ایک چادر، ایک كھال کا بنا ہوا  گدا جس کے اندر کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی، دوچکیاں اور دو مشکیں بھیجی تھیں۔

 

(1)بہشتی زیور (473 چھٹا حصہ) میں ہے:

’’ اور اس سے بڑھ کر قصہ بری و جہیز کا ہے جو شادی کے بڑے بھاری رکن ہیں اور ہر چند  دونوں امر اصل میں جائز بلکہ بہتر و مستحسن تھے کیونکہ بری یا ساچق حقیقت میں دولہا یا دولہا والوں کی طرف سے دولہن یا دولہن والوں کو ہدیہ ہے اور جہیز حقیقت میں اپنی اولاد کے ساتھ سلوک و احسان ہے۔ مگر جس طور سے اس کا رواج ہے، اس میں طرح طرح کی خرابیاں ہو گئی ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اب نہ ہدیہ مقصود رہا نہ سلوک  و احسان محض ناموری و شہرت اور پابندی رسم کی نیت سے کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بری و جہیز دونوں کا اعلان ہوتا ہے یعنی دکھلا کر شہرت دیکر دیتے ہیں، بری بھی بڑی دھوم دھام اور تکلف سے دی جاتی ہے اور اس کی چیزیں بھی خاص مقرر ہیں۔ برتن بھی خاص طرح کے ضروری سمجھے جاتے ہیں اس کا عام طور پر نظارہ بھی ہوتا ہے، موقع معین ہوتا ہے اگر  ہدیہ مقصود ہوتا تو معمولی طور پر جب میسر آتا اور جو میسر آتا بلا پابندی کسی رسم کے اور بلا اعلان کے محض محبت سے بھیج دیا کرتے، اسی طرح جہیز کا اسباب بھی خاص خاص مقرر ہے کہ فلاں فلاں چیز ضروری ہو اور تمام برادری اور بعض جگہ صرف اپنا کنبہ اور گھر والے اس کو دیکھیں اور دن بھی وہی خاص ہو اگر صلہ رحمی یعنی سلوک و احسان مقصود ہوتا تو معمولی طور پر جو میسر آتا اور جب میسر آتا دیدتے۔ اسی طرح ہدیہ اور صلہ رحمی کے لیے کوئی شخص قرض کا بار نہیں اٹھاتا لیکن ان دونوں رسموں کو پورا کرنے کو اکثر اوقات قرضدار بھی ہوتے ہیں گو سود ہی دینا پڑے۔‘‘

(1-2) امداد الاحکام (2/371) میں ہے:

جواب: باپ کا  اپنی لڑکی کو نکاح کے وقت  جہیز دینا سنت نبویہ سے ثابت ہے رسول اللہﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراءؓ کو شادی کے وقت جہیز دیا۔

(3) فتاویٰ عالمگیری (5/343) میں ہے:

ووليمة العرس سنة وفيها مثوبة عظيمة وهي إذا بنى الرجل بامرأته ينبغي أن يدعو الجيران والأقرباء والأصدقاء ويذبح لهم ويصنع لهم طعاما وإذا اتخذ ينبغي لهم أن يجيبوا

(3)عمدة القاری شرح صحيح البخاری (17/ 239)میں ہے:

قوله: (أولم) أمر أي اتخذ وليمة وهي الطعام الذي يصنع عند العرس ومن ذهب إلى إيجابها أخذ بظاهر الأمر وهو محمول عند الأكثر على الندب وفي ( التلويح ) والوليمة في العرس مستحبة وبه قال الشافعي وفي رواية عنه واجبة وهو قول داود وقتها بعد الدخول وقيل عند العقد وعن ابن حبيب استحبابها عند العقد وعند الدخول وأن لا ينقص عن شاة قال القاضي الإجماع أنه لا حد لقدرها المجزىء وقال الخطابي إنها قدر الشاة لمن قدر عليها فمن لم يقدر فلا حرج عليه فقد أولم رسول الله بالسويق والتمر على بعض نسائه

 

(4)فتح الملہم(6/578) میں ہے:

قولهﷺ: (أولم ولو بشاة) دليل على أنه يستحب للموسر أن لا ينقص عن شاة، ونقل القاضي الإجماع على أنه لا حد لقدرها المجزئ، بل بأي شيئ أولم من الطعام، حصلت الوليمة. وقد ذكر مسلم بعد هذا في وليمة عرس صفية: أنها كانت بغير لحم، و في وليمة زينب: أشبعنا خبزا ولحما، وكل هذا جائز تحصل به الوليمة، لكن يستحب أن تكون على قدر حال الزوج.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved