• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیادل میں طلاق کےالفاظ سوچنےسےطلاق ہوجائےگی؟

استفتاء

کیا نکاح سے پہلے طلاق ہو جاتی ہے ؟ایک لڑکا ایک لڑکی سے بہت پیار کرتا ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ لڑکا فیشن شو دیکھتا ہے اس نے اس سے چھٹکارا پانے کے لیے یہ قسم کھائی کہ اگر اب میں فیشن شو والی ویڈیو دیکھوں تو وہ لڑکی جب میری زندگی میں آئے تو اسے طلاق ہو جائے (اس کی نیت یہ تھی کہ میں اس لڑکی کو بہت چاہتا ہوں اگر میں اس کا نام لے کر کہوں گا تو میری یہ فیشن شو دیکھنے والی عادت چھوٹ جائے گی کیونکہ مجھے ڈر ہوگا کہ اگر میں یہ دیکھوں گا تو وہ لڑکی میری زندگی سے دور ہو جائے گی )ایک بار دیکھوں تو ایک بار طلاق دو بار دیکھوں تو دو بار طلاق پھر اس نے فیشن شو والی ویڈیو دیکھ لی تو کیا جب وہ لڑکا اس لڑکی سے شادی کرے گا تو اسے طلاق ہوجائے گی؟ اور اس لڑکے کو یہ بھی لگتا ہے کہ کیا پتہ اس نے تین بار کہا ہو کہ تین باردیکھوں تو تین بار طلاق ہو لیکن اسے یاد نہیں کہ اس نے تیسری بار کہا تھا یا نہیں اس بات پر قسم بھی اٹھا سکتا ہے کہ اسےتین بار کا یاد نہیں اس کا حل فرما دیں ۔

وضاحت مطلوب ہے: (1)جب یہ باتیں کہیں تھیں نکاح ہوا تھا یا نہیں اور اب نکاح ہوا ہے یا نہیں؟ (2)آپ نے الفاظ کیا بولے تھے مکمل وضاحت سے بتائیں نیز الفاظ زبان سے بولے تھے یا صرف دل میں ہی سوچے تھے ؟

جواب  وضاحت :(1)نہ اس وقت نکاح ہوا تھا اور نہ ہی اب تک ہوا ہے۔(2)کچھ الفاظ دل میں سوچے تھے کچھ زبان سے بولے تھے مثلا طلاق کا لفظ اور اسی طرح یہ الفاظ کہ(ایک بار دیکھوں) دل میں سوچے تھے اور(ایک بار ہوجائے) یہ الفاظ زبان سے بولےتھے لیکن مجھے زبان سے بولے جانے والے الفاظ میں بھی شک ہے کہ یہی بولے تھے یا کوئی اور بولے تھے مجھے یاد نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

طلاق کے الفاظ صرف دل میں سوچنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی اور نہ ہی ایسے سوچنے سے طلاق معلق ہوتی ہے اس لیے

مذکورہ صورت میں "لفظ طلاق اورایک بار دیکھوں تو”یہ الفاظ دل میں سوچنے اور”ایک بار ہو جائے” یہ الفاظ زبان سےبولنےسے طلاق معلق نہیں ہوئی لہذا جب وہ لڑکا اس لڑکی سے نکاح کرے گا تو  طلاق واقع نہیں ہوگی۔

مراقی الفلاح(219) میں ہے:

السماع شرط فيما يتعلق بالنطق باللسان التحريمة والقراءة السرية والتشهد والأذكار والتسمية على الذبيحة ووجوب سجود التلاوة والعتاق والطلاق والاستثناء واليمين والنذر والإسلام والإيمان حتى لو أجرى الطلاق على قلبه وحرك لسانه من غير تلفظ يسمع لا يقع وإن صحح الحروف.

شامی(4/420)میں ہے:

قوله:(ركنه لفظ مخصوص) وهو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح اوكناية….. وبه ظهر ان من تشاجر مع زوجته فاعطاها ثلاثة احجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحاولاكناية لايقع عليه.

فتاوی محمودیہ(12/266)میں ہے

سوال:زید ایک گناہ میں مبتلا ہے اس نے اس گناہ کو چھوڑنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا اس نے یہ سوچ کر کے یہ گناه اس طرح جھوٹ جائے گا یہ شرط اپنے دل میں لگائی کہ اگر میں دوبارہ اس گناہ کو کروں تو میری گھر والی کو طلاق یہ دل میں طے کر لیا یہ تشریح نہیں کی کہ طلاق بائن یارجعی یامغلظہ اب پھر زید نے وہ گناہ کر لیا تو کیا اس طرح طلاق واقع ہو جائے گی؟

 جواب :اگر دل میں طےکیا تھا اور زبان سے نہیں کہا تھا تو کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved