• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لڑائی کے دوران طلا ق طلا ق طلا ق کہنا

استفتاء

2007میں طلاق دی تین ۔لڑائی کے دوران میں نے غصہ میں کہا کہ” طلاق دے دو طلاق” پھر اس نے 3 دفعہ سیدھا کہا طلاق، طلاق طلاق۔پھر کچھ وقت کے بعد صلح کرلی یہ کہہ کر کہ:3ماہ سے پہلے صلح کر لو تو طلاق   نہیں ہوتی۔

2008 میں منہ سے تین  طلاق دی۔میں گھر بات فون سے کررہی تھی توغصہ میں تھی کہ تنگ کر کےرکھا ہوا  ہے اس شخص نے۔اس نے غصہ میں مجھے کہا” طلاق ،طلاق، طلاق” ۔میں سمجھی کہ گھروالوں  نے سن لی ۔ 2   طلاق اور3 طلاق سے پہلے میں فون بند کر چکی تھی اس نے دورباہ صلح کرلی کہ کوئی بات نہیں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ۔

2010 میں طلاق phone text        (میسج) میں تین طلاق لکھ کر دی۔ (شوہر) کام پرتھا اور میرا بڑا بیٹاپیدا ہواتھا  اب یہ یاد نہیں کہ میںcycle (ماہواری)میں تھی   یانہیں؟

اس نے موبائل  کے text میں لکھا talaq , talaq , talaq اور صبح آکر مجھے گلے سے لگایا۔ میں نے اس کو کہا کہ کسی سے پوچھو  تو(شوہر)   نے کہا کہ طلاق ایسے نہیں ہوتی اور مجھ سے صلح کرنے کے لیے         کہانیاں سنادی۔میں نہیں چھوڑ سکتا۔ تین طلاق میرے بھائی (گھر والوں ) کے ذریعے 17فروری 2020 بوقت 09:09pmمیں دی ۔بار بار میرے بھائیوں کو میسج کر کے کہ میں افسوس کے ساتھ تمہاری بہن کوطلاق دے رہا ہوں ۔میرے بھائیوں نے بھی غصے میں کہا کہ دیدوپھر۔اس نےمیسج میں لکھ کر کہہ دیا "دے   دی ہوئی طلاق، طلاق ، طلاق”۔

شوہر کا بیان :

لڑکی نے  جو اوپر بیان دیا ہے اس کی نسبت سے ہم نے شوہر سےWHATSAPP پر رابطہ کیا تو شوہر نے بدزبانی کی ،گالم گلوچ اوردھمکی  دی ۔فیصلہ کرنے والے نے شوہر سے۔

واٹس ایپ میسج کےسکرین شارٹ درج ذیل ہیں:

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  بیوی  کے بیان کے        مطابق  2007            میں بیوی       کے مطالبہ       طلاق       پر جب          شو ہر     نے "طلاق              ،طلاق، طلاق” کہا  تھا     تواسی وقت   تینو ں طلاقیں  واقع ہو چکی تھیں  ۔ تین طلاق کے بعد صلح یا  رجوع کی کوئی گنجا ئش نہیں رہی   لہذا شوہر کا صلح کر نا  بےفائدہ تھا۔

اگر چہ شوہر نے لفظوں میں طلاق کی نسبت اپنی  بیوی کی طرف نہیں کی لیکن  چو نکہ سوال میں بیوی کی طرف سے طلاق کا مطالبہ موجود ہے  اس لئے  یہ طلاق بیوی کو ہی سمجھی جائے گی ۔

فتاوی عالمگیری(411/2) میں ہے

وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية

فتاوی شامی (438/4)میں ہے:

قلت وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها إنه على ثلاثة أقسام أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده وهذا لا إشكال فيه

 الثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله

 

امدادالفتاوی (445/2 ) میں ہے:

از قواعد وجزئیات چناں می نماید کہ شرط و قوع طلاق مطلق اضافت  ا  ست         نہ        کہ            اضافت صریحہ آرے تحقق مطلق اضافت محتاج ست بقرائن قویہ و قرائن ضعیفہ محتملہ در آں کافی نیست پس درجزئیاتیکہ حکم بعدم و قوع کردہ اند سببش نہ آنست کہ در و اضافۃ صریحہ نیست بلکہ سبب آن ست کہ درو قرینۂ قویہ بر اضافت قائم نیست و آں قرینہ بہ تتبع چند قسم ست اول صراحۃ اضافت و آں ظاہر است کما فی قولہ اینکت دوم نیت کما فی قولہ عنیت امرأتی و از عبارت خلاصہ وإن لم یقل شیئالا یقع شبہ نہ کردہ شود کہ نیت بلا اضافت صریحہ کافی نیست زیرا کہ معنی لا یقع اے لا تحکم بوقوعہ مالم یقل عنیت است چرا کہ بدون اظہار نادی دیگراں را علم نیت جگونہ می تواں شد فإذا قال عنیت یقع لا لقولہ عنیت لا نہ لیس موضوعا للطلاق بل لقولہ سہ طلاق مع النیۃ فافہم فإنہ متعین متیقن سوم اضافۃ در کلام سائل کما فی قولہ دادم فی جواب قولہا۔ مرا طلاق دہ ولہٰذا ثلث واقع شود لتکرار ہا ثلاثا ورنہ کلام دادم نہ برائے طلاق موضوع ست ونہ برائے عدد ثلثہ  چہارم عرف کما فی روایۃ الشامي الطلاق یلزمني۔ پس درجزئیاتیکہ ہمہ قرآئن مفقود باشند طلاق واقع نہ خواہد شد لا لعدم الاضافۃ الصریحۃ بل لعدم مطلق الاضافۃ پس بریں تقریر در مسائل ہیچ گونہ تدافع نیست ہذا ما عندی ولعل عند غیری احسن من ہذا۔

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved