• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لکھی ہوئی تحریر طلاق پر دستخط

استفتاء

***کی شادی*** سے ہوئی۔*** شہر میں۔ ان دونوں کی شادی ہوئی چند دن ساتھ رہنے کے بعد جھگڑا فساد مابین فریقین شروع ہوا۔ لڑکی ناراض ہوکر اپنے میکے چلی گئی۔ لڑکا اس وقت سعودی عرب میں تھا اور لڑکی اوکاڑہ  میں اپنے گھر چلی گئی۔ اب لڑکے کے بھائی نے وکیل سے پاکستان میں طلاق نامہ لکھوایا۔ اور لڑکے کو*** بھیج دیا۔ لڑکے نے کہا میں نے اس طلاق نامہ کو بغیر پڑھے دستخط کردیے۔ اور لڑکا کہتا ہے کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی۔

لڑکے نے سعودی عرب کے مفتیان کرام سے اس مسئلے کا حل پوچھا تو انہوں نے یہ فرمایا کہ طلاق نہیں ہوئی۔ اس کے بعد لڑکے نے دوسری شادی کی۔ اور اس کے ساتھ بھی نباہ بہتر نہ ہونے کی وجہ سے طلاق دیدی۔ اب وہ لڑکا *** اور لڑکی***جو پہلے اس کی منکوحہ تھی اب وہ دونوں کہہ رہے ہیں ہم دونوں آپس میں رہنا چاہتے ہیں یعنی بسنا چاہتے ہیں۔ لڑکی اور لڑکے آپس میں رہنا چاہتے ہیں لیکن آپ یہ بتائیں کہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

طلاق جس طرح زبان سے دینے سے واقع ہوجاتی ہے اسی طرح لکھ کر دینے سے بھی واقع ہوجاتی ہے۔ بیوی کے نام تحریر میں جب شوہر طلاق کے صریح الفاظ لکھ دے تو نیت پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی طلاق پڑجاتی ہے۔

لڑکے کا یہ کہنا کہ اس نے پڑھے بغیر دستخط کیے تھے معتبر نہیں ہے کیونکہ کسی شخص کے پاس پاکستان سے سعودیہ خط پہونچے اور وہ اسے پڑھے بغیر نیچے دستخط کردے یہ ممکن نہیں ہے۔ لہذا تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں صلح یا رجوع کی گنجائش نہیں ہے۔ یہی قران و سنت اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہ اور فقہاء کا متفقہ مسئلہ ہے۔ ***کے علماء کا تحریری فتویٰ ہو تو وہ دکھائیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved