• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

معمولی نشے میں طلاق دینے کا حکم   

استفتاء

بیوی کا بیان:

میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ ساری بات سچ لکھوں گی۔  میرے شوہر چرس کا نشہ کرتے ہیں،  کچھ دن پہلے ہماری لڑائی ہوئی تھی اور انہوں نے مجھے مارا بھی تھا، اس لیے میں اپنے والدین کی طرف آ گئی تھی، کچھ دن بعد میں نے شوہر کو فون کر  کے ان سے  بات کی، میں نے کہا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا، میری فیملی کو فون کرکے میرے بارے میں باتیں کرتے رہے ہو بہت پچھتاؤ گے، کسی ہسپتال میں اپنا دماغ چیک کراؤ، تو اس نے غصے میں کہا کہ ’’میں تمہیں اپنے ہوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں‘‘ مجھے یقین ہے انہوں نے یہی الفاظ کہے تھے، اب وہ رو رہے ہیں اور سچے دل  سے معافی مانگ رہے ہیں۔  کیا  نشے کی حالت میں طلاق ہو جاتی ہے ؟

شوہر کا بیان:

میں اللہ تعالی کو گواہ بنا کر کہتا ہوں جب ہماری فون پر بات ہو رہی تھی میں نشے میں تھا، چرس کا نشہ کیا ہوا تھا،نشے کی وجہ سے میرا ذہن الجھا ہوا تھا، لیکن مجھے یاد ہے کہ میں نے نشے کی حالت میں اپنی بیوی کو یہ کہا  کہ ’’میں تمہیں طلاق دے دوں گا‘‘ ’’طلاق دیتا ہوں‘‘ نہیں کہا ، میرا طلاق دینے کا ارادہ نہیں تھا۔

وضاحت مطلوب ہے کہ

فون پر بات کرتے وقت شوہر کی حالت کیسی تھی؟ وہ بہکی بہکی باتیں کر رہا تھا یا ٹھیک گفتگو کر رہا تھا؟

جواب وضاحت:  (اززوجہ) ٹھیک باتیں کر رہا تھا، بہکی بہکی باتیں نہیں کی، البتہ روانی سے بات نہیں کر رہا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: طلاق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہٰذا اگر وہ شوہر سے طلاق کے الفاظ خود سن لے یا اسے معتبر ذریعے سے شوہر کے طلاق دینے کا علم ہوجائے تو اس کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے، مذکورہ صورت میں چونکہ بیوی کو یقین ہے کہ شوہر نے تین مرتبہ ’’ طلاق دیتا ہوں‘‘ کہا ہے لہذا  بیوی کے حق میں تینوں  طلاقیں واقع ہو گئی ہیں۔

نوٹ: نشہ کی صورت میں طلاق معتبر نہ ہونے کا اعتبار اس صورت میں ہے کہ جب کلام میں اختلاط وہذیان غالب ہو، مذکورہ  صورت میں شوہر کا نشہ اس درجے کا معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اسے اپنے الفاظ کا علم بھی تھا اور تلفظ کا  ارادہ بھی تھا اگرچہ اس کا دعوی یہ ہے کہ میں نے ’’ طلاق  دیتا ہوں ‘‘ کے الفاظ نہیں بولے بلکہ ’’طلاق دیدوں گا‘‘ کے الفاظ بولے ہیں۔

درمختار (4/509) میں ہے:كرر لفظ الطلاق وقع الكل.(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.درمختار مع ردالمحتار (449/4)میں ہے:والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينهدرمختار مع ردالمحتار (432/4) میں ہے:مطلب في تعريف السكران وحكمه(قوله أو سكران) السكر: سرور يزيل العقل فلا يعرف به السماء من الأرض. وقال: بل يغلب على العقل فيهذي في كلامه، ورجحوا قولهما في الطهارة والأيمان والحدود. وفي شرح بكر: السكر الذي تصح به التصرفات أن يصير بحال يستحسن ما يستقبحه الناس وبالعكس. لكنه يعرف الرجل من المرأة قال في البحر: والمعتمد في المذهب الأول نهر. قلت: لكن صرح المحقق ابن الهمام في التحرير أن تعريف السكر بما مر عن الإمام إنما هو السكر الموجب للحد، لأنه لو ميز بين الأرض والسماء كان في سكره نقصان وهو شبهة العدم فيندرئ به الحد وأما تعريفه عنده في غير وجوب الحد من الأحكام فالمعتبر فيه عنده اختلاط الكلام والهذيان كقولهما. ونقل شارحه ابن أمير حاج عنه أن المراد أن يكون غالب كلامه هذيانا، فلو نصفه مستقيما فليس بسكر فيكون حكمه حكم الصحاة في إقراره بالحدود وغير ذلك لأن السكران في العرف من اختلط جده بهزله فلا يستقر على شيء، ومال أكثر المشايخ إلى قولهما، وهو قول الأئمة الثلاثة واختاروه للفتوى لأنه المتعارف، وتأيد بقول علي – رضي الله عنه – إذا سكر هذى رواه مالك والشافعي، ولضعف وجه قوله ثم بين وجه الضعف فراجعه.و به ظهر أن المختار قولهما في جميع الأبواب فافهم.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved