• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

محض”طلاق ہوگئی ہے” کہنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

میرا نام فہد ہے اور اسلام آباد سے تعلق ہے۔ میری شادی کو ساڑھے پانچ سال ہو گئے ہیں۔ شادی تایا کی بیٹی سے ہوئی ہے۔ کچھ مسائل کی وجہ سے میرے والد اور سُسر (تایا) جو دونوں سعودیہ میں ہیں، اُن سے فون پر میری بات ہو رہی تھی اور وہ دونوں کہنے لگے کے تم طلاق دو اور جو میری چھوٹی بیٹی ہے وہ بھی ہمارے حوالے کرو۔ یہ بات میری اپنے والد اور سُسر سے فون پر ہو رہی تھی۔ جب فون بند ہوا تو میرے پاس صرف میری امی موجود  تھیں۔ والدہ نے پوچھا کیا بنا یا کیا کہہ رہے ہیں؟میں نے بولا "طلاق ہو گئی” اِس بات کو بولتے وقت میرا اِرادہ طلاق کا نہیں تھا اور نہ ہی میں غصے میں تھا بلکہ والدہ کو میرے والد اور سُسر(تایا) جو فیصلہ کر چکے تھے وہ بتانے کے لحاظ سے میں نے “طلاق ہو گئی” کا لفظ بولا تھا۔ یہ واقعہ جمعرات 23 فروری کو ہوا۔ آج 25 فروری  ہے جب میں آپ کو یہ لکھ رہا ہوں مجھے شروع میں یہ یاد تھا کہ میں نے یہ لفظ ایک بار بولا تھا۔ بعد میں مجھے یہ شک ہونے لگا کہ یہ لفظ ایک بار بولا ہے یا دو بار۔ مگر میرا بہت زیادہ گمان/خیال  یہ ہے کہ میں نے ایک بار بولا تھا۔ بولتے وقت نیت اَللّٰہ تعٰالی کو حاظر ناظر مان کر کہتا ہوں کہ طلاق کی نہیں تھی بلکہ والدہ کو جو فیصلہ میرے والد اور سُسر (تایا)، دونوں بھائی آپس میں کر چُکے تھے، وہ بتانے کی نیت تھی۔ یہ بات آج 25 فروری کو والدہ سے پوچھی تو والدہ نے کہا جہاں تک مجھے  یاد ہے تم نےایک بار بولا تھا۔  اس کے چند دن بعد ایک مفتی صاحب نے کہا تھا کہ آپ زبان سے کہہ دیں کہ میں نے رجوع کیا تو میں نے یہ کہہ دیا تھا۔

سوال آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ نیت جو اُوپر بتائی ہے، کیا ایسے بولنے سے طلاق تو نہیں ہو جاتی؟ اگر ہوگئی ہے تو رجوع کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے حق میں تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی البتہ اگر بیوی کو اس بات کا علم ہوگیا تو وہ اس سے ایک رجعی طلاق شمار کرے گی لیکن شوہر نے چونکہ عدت کے اندر رجوع کرلیا تھا اس لیے بیوی کے حق میں نکاح ختم نہیں ہوا بلکہ نکاح باقی ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں شوہر نے جب کہا کہ "طلاق ہوگئی” تو اس میں شوہر اپنی بیوی  کو طلاق ہونے کا اقرار کررہا ہے اور شوہر نے جب طلاق نہ دی ہو اور طلاق کا اقرار کرلے تو اس سے بیوی کے حق میں قضاءً طلاق واقع ہوجاتی ہے اور طلاق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے جس  کی وجہ سے وہ اقرار طلاق کو بھی طلاق شمار کرنے کی پابند ہوتی ہے اور چونکہ "طلاق ہوگئی” میں طلاق کا صریح لفظ موجود ہے اور صریح لفظ میں نیت کے بغیر بھی طلاق ہوجاتی ہے، لہٰذا مذکورہ صورت میں اگر بیوی کو اس بات کا علم  ہوگیا تو وہ اپنے حق میں ایک رجعی طلاق شمار کرے گی اور بیوی کے حق میں شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا، نیز اگرچہ شوہر نے جملے میں صراحتاً بیوی کا نام نہیں لیا لیکن چونکہ اس سے پہلے اس بیوی کا ذکر ہی ہورہا تھا لہٰذا معنیً نسبت موجود ہے جو طلاق واقع ہونے کے لیے کافی ہے۔

نیز شوہر کو دوسری مرتبہ "طلاق ہوگئی” کہنے میں شک ہے اور شک سے طلاق واقع نہیں ہوتی لہٰذا مذکورہ صورت میں صرف ایک ہی طلاق  واقع ہوگی۔

در مختار(4/428) میں ہے:

ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة.

رد المحتار(4/449)میں ہے:

والمرأة ‌كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.

ردالمحتار(4/444)میں ہے:

ولا ‌يلزم ‌كون ‌الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اهـ. على أنه في القنية قال عازيا إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر فقال: إني حلفت بالطلاق أني لا أشرب وكان كاذبا فيه ثم شرب طلقت. وقال صاحب التحفة: لا تطلق ديانة اهـ وما في التحفة لا يخالف ما قبله لأن المراد طلقت قضاء فقط، لما مر من أنه لو أخبر بالطلاق كاذبا لا يقع ديانة بخلاف الهازل، فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحا، نعم يمكن حمله على ما إذا لم يقل إني أردت الحلف بطلاق غيرها فلا يخالف ما في البزازية ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه، بخلاف ما لو ذكر اسمها أو اسم أبيها أو أمها أو ولدها فقال: عمرة طالق أو بنت فلان أو بنت فلانة أو أم فلان، فقد صرحوا بأنها تطلق، وأنه لو قال: لم أعن امرأتي لا يصدق قضاء إذا كانت امرأته كما وصف كما سيأتي قبيل الكنايات وسيذكر قريبا أن من الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلا نية للعرف إلخ. فأوقعوا به الطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلاق إليها صريحا، فهذا مؤيد لما في القنية، وظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف، والله أعلم

عالمگیری (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

تنویر الابصار(4/448)میں ہے:

صريحه ما لم يستعمل إلا فيه كطلقتك وأنت طالق ومطلقة ويقع بها واحدة رجعية وإن نوى خلافها أو لم ينو شيئا

وقال الشامي تحته:(قوله أو لم ينو شيئا)لما مر أن ‌الصريح ‌لا ‌يحتاج ‌إلى ‌النية

المبسوط للسرخسی (6/27) میں ہے:

(‌ولو ‌كتمها ‌الطلاق ثم راجعها وكتمها الرجعة فهي امرأته) لأنه في إيقاع الطلاق هو مستبد به وكذلك في الرجعة

بدائع الصنائع (3/199) میں ہے:

وهو شرط الحكم بوقوع الطلاق حتى لو شك فيه، لا يحكم بوقوعه حتى لا يجب عليه أن يعتزل امرأته؛ لأن النكاح كان ثابتا بيقين ووقع الشك في زواله بالطلاق فلا يحكم بزواله بالشك كحياة المفقود، أنها لما كانت ثابتة ووقع الشك في زوالها لا يحكم بزوالها بالشك حتى لا يورث ماله ولا يرث هو أيضا من أقاربه.

والأصل في نفي اتباع الشك قوله تعالى {ولا تقف ما ليس لك به علم} [الإسراء: 36] وقوله – عليه الصلاة والسلام – لما سئل عن الرجل يخيل إليه أنه يجد الشيء في الصلاة – «لا ينصرف حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا» اعتبر اليقين وألغى الشك ثم شك الزوج لا يخلو: إما أن وقع في أصل التطليق أطلقها أم لا؟ وإما أن وقع في عدد الطلاق وقدره؛ أنه طلقها واحدة أو اثنتين أو ثلاثا، أو صفة الطلاق أنه طلقها رجعية أو بائنة فإن وقع في أصل الطلاق لا يحكم بوقوعه لما قلنا، وإن وقع في القدر يحكم بالأقل؛ لأنه متيقن به وفي الزيادة شك، وإن وقع في وصفه يحكم بالرجعية؛ ‌لأنها ‌أضعف الطلاقين فكانت متيقنا بها

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved