• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’میں نے تولو طلاق دی، جا دفع ہو جا‘‘۔ کنایہ کے الفاظ سے تین طلاق کی نیت کرنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے تقریباً گیارہ (11) ماہ قبل اپنی بیوی سے دوران تلخی کہا ’’میں نے تولو طلاق دی، جا دفع ہو جا‘‘، میں نے اسی دن بیوی سے رجوع کر لیا تھا، میں نے محلے کی مسجد کے امام صاحب سے مسئلہ پوچھا۔ اب دس (10) ماہ بعد یہ بات سامنے آئی کہ *** نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں۔ مولانا صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ اس نے مجھ سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں، میں نے تحقیق کے لیے اپنی بیوی سے پوچھا کہ میں نے کیا کلمات کہے تم سے، اس کا کہنا تھا کہ میں نے کوئی کلمات نہیں سنے، جبکہ میری چھوٹی بھابھی نے اس کو بتایا کہ بھائی نے آپ کو یہ الفاظ کہے کہ ’’میں نے  تولو طلاق دی، جا دفع ہو جا‘‘۔  اس بات کی گواہی آج بھی دیتیں ہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ میرے سسر اور امام صاحب کا مؤقف ہے کہ *** نے تین طلاقیں دی ہیں، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے (میں امام مسجد مولانا صفی اللہ صاحب کی ) تحریر ساتھ لایا ہوں جو کہ میرے سسر *** کا بھی مؤقف ہے۔

شوہر کا بیان حلفی

میں محمد ***  اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی کو صرف یہ الفاظ کہے کہ ’’میں نے تولو طلاق دی، جا دفع ہو جا‘‘۔

1۔ کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہو جاتی ہے؟ 2۔ میرے رجوع کی شرعی  حیثیت کیا ہے؟ 3۔ آئندہ بھی اسی رشتہ سے منسلک رہ سکتا ہوں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں مفصلاً ارشاد فرمائیں اور عند اللہ ماجور فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

امام مسجد کا بیان

محترم مفتیان عظام !

*** آج سے تقریباً گیارہ ماہ قبل کا وقوعہ ہے کہ مجھ سے مسئلہ پوچھا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلا ق دی ہے، میرے پوچھنے پر اس نے جو الفاظ بتلائے وہ الفاظ کنائی تھے (جو اس وقت میرے ذہن میں نہیں، اس لیے کہ  وقوعہ گیارہ ماہ قبل کا ہے)،  میں نے اس سے پوچھا کہ ان الفاظ سے تیری کیا مراد تھی؟ کہنے لگا ’’طلاق کی‘‘۔ میں نے پوچھا کتنی طلاقوں کی تھی؟ اس نے بتایا کہ ’’تین طلاقوں کی نیت تھی، میں جھوٹ نہیں بولتا‘‘۔ اس پر بندہ ناچیز  نے اس کو مسئلہ بتایا، اس نے کہا کسی سے اس کا تذکرہ نہ کرنا۔ والسلام مع الاکرام

سسر کا بیان

میں ***  اس تحریر کی تائید کرتا ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) مذکورہ صورت میں شوہر نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ یہ ہیں: ’’میں نے تولو (تجھے) طلاق دی، جا دفعہ ہو جا‘‘۔

ان الفاظ میں سے پہلا لفظ طلاق کے لیے صریح ہے۔ جس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے۔  (2)جبکہ دوسرا لفظ یعنی ’’جا دفعہ ہو جا‘‘ طلاق کے لیے کنائی لفظ ہے۔ اور کنایات میں بھی قسم اول ہے۔ قسم اول کے الفاظ طلاق کی نیت سے کہے جائیں تو ان سے طلاق ہوتی ہے ورنہ  نہیں۔ پھر نیت اگر ایک کی ہو تو ایک بائنہ طلاق ہوتی ہے، اور نیت تین کی ہو تو تین طلاقیں ہو جاتی ہیں۔

(3) مذکورہ صورت میں امام صاحب کا کہنا یہ ہے کہ شوہر نے میرے پوچھنے پر بتایا تھا کہ میری نیت تین طلاقوں کی تھی۔ جبکہ شوہر نے اپنے بیان میں نیت کا انکار نہیں کیا۔ لہذا اگر شوہر امام صاحب کی کہی ہوئی بات کو تسلیم کرتا ہے تو مذکورہ صورت میں تین طلاقیں ہو گئی ہیں۔ اور اگر شوہر سرے سے نیت ہی کا انکار کرتا ہے یا تین کی نیت کا انکار کرتا ہے،(4)  تو اس صورت میں امام صاحب کے ذمے ہے کہ وہ اپنی بات پر معتبر گواہ پیش کریں۔ اگر امام صاحب اپنی بات پر معتبر گواہ پیش کر دیں تو پھر بھی تین طلاقیں ہو جائیں گی۔ اور اگر امام صاحب کے پاس گواہ نہیں ہیں تو شوہر سے نیت نہ ہونے پر یا تین کی نیت نہ ہونے پر مسجد میں ان الفاظ میں قسم لی جائے کہ ’’ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا تا ہوں کہ میری ان الفاظ سے کہ ’’جا دفعہ ہو جا‘‘ طلاق کی نیت نہیں تھی، یا نیت تو تھی لیکن تین طلاق کی نیت نہ تھی۔‘‘ اگر وہ طلاق کی نیت نہ ہونے پر یا تین طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم دے دے تو شوہر کے حق میں ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔ (5) البتہ اس قسم کے باوجود یہ الفاظ پہلی رجعی طلاق کو بائنہ طلاق میں تبدیل کر دیں گے۔ (6) اور عورت کے لیے حکم یہ ہے کہ اگر اسے امام صاحب کی بات پر اعتماد ہے تو وہ شوہر کے قسم دینے کے باوجود اپنے حق میں تین طلاقیں سمجھے اور شوہر کے ساتھ نہ رہے۔ اور اگر اسے امام صاحب کی بات پر اعتماد نہ ہو تو پھر عورت کے حق میں بھی ایک بائنہ طلاق ہو گی، جس کا حکم یہ ہے کہ دوبارہ نکاح کر کے میاں بیوی اکٹھے رہ سکیں گے۔

(1) فتاویٰ شامی (4/443) میں ہے:

صريحة ما لم يستعمل إلا فيه، ولو بالفارسية كطلقتك وأنت طالق، ويقع بها واحدة رجعية.

(2)وفيه أيضاً (4/521):

والحاصل: أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة.

(3)فتاویٰ عالمگیری (1/376) میں ہے:

ولو قال تزوجي ونوى الطلاق لو الثلاث صح، وإن لم ينو شيئاً لا يقع كذا في الغياثية.

فتاویٰ شامی (4/539) میں ہے:

ولو قال: اذهبي فتزوجي وقال لم أنو الطلاق لا يقع شيء لأن معناه إن أمكنك، اه. إلا أن يفرق بين الواو والفاء وهو بعيد هنا، بحر … ولا فرق بين الواو والفاء ويؤيد ما في الذخيرة: اذهبي وتزوجي لا يقع إلا بالنية وإن نوى فهي واحدة بائنة، وإن نوى الثلاث فثلاث.

(4) مشکوٰۃ شریف  میں ہے:

عن ابن عباس -رضي الله عنه- مرفوعاً لكن البينة على المدعي واليمين على من أنكر، أو كما قال عليه السلام. (ص: 326، إدارة الحرم لاهور)

فتاویٰ شامی (4/521) میں ہے:

والقول له بيمينه في عدم النية.

(5) امداد المفتین (از حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ) (ص:521) میں ہے۔

(6) فتاویٰ شامی (4/449)

المرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه……………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved