• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے ’’میں نے تجھے طلاق‘‘ تک بولا کہ بیوی نے منہ پر ہاتھ رکھ دیا، طلاق ہوئی یا نہیں؟

استفتاء

شوہر کا حلفیہ  بیان:

منکہ *******ملتان روڈ کا رہائشی ہوں اور حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ میری شادی ****سے بارہ تیرہ سال پہلے ہوئی تھی، ہمارے تین بچے ہیں ایک لڑکا اور دو لڑکیاں۔ میری بیوی سے تلخ کلامی ہوئی تھی میرے منہ سے لفظ ’’میں تجھے طلاق‘‘ جس پر پورا جملہ مکمل نہ ہوا تھا کہ میری بیوی نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا جس پر میں خاموش ہوگیا تھا۔

اس کے کچھ عرصہ بعد (4جنوری، 2020 کو) دو مرتبہ طلاق دی۔ دو مرتبہ کہا تھا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘۔ اب میری بیوی سے رنجش دور ہوچکی ہے اور آئندہ اب کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ لفظ طلاق کو حتمی تصور نہ کیا جائے اللہ تعالیٰ سے معافی کا طلبگار ہوں۔

(اب شوہر نے دار الافتاء فون کر کے یہ بات کہی ہے کہ:

میری بیوی نے مجھے یاد کروایا ہے، مجھے کچھ ایسے یاد آتا ہے کہ میری بیوی نے ہاتھ جوڑ لئے تھے اور میرا خیال ہے کہ ایسا ہوا ہوگا لیکن خیال ہی ہے یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا)

بیوی کا حلفیہ بیان:

میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ اقرار کرتی ہوں کہ میرے شوہر نے مجھے ایک طلاق دی جس کا مکمل جملہ مجھے یاد نہیں۔ میرے شوہر کا کہنا ہے کہ پہلی طلاق دیتے ہوئے جملہ پورا ہونے سے پہلے تم نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا لیکن مجھے یاد نہیں۔ جہاں تک میرا گمان ہے کہ یہ ایک بار طلاق بچوں کو گواہ بنا کر دی تھی اگرچہ بچوں کو بھی یاد نہیں۔ اس معاملے کے تقریبا پانچ ماہ بعد دو مرتبہ واضح الفاظ میں طلاق دی جو بچوں کو اور مجھے یاد ہے۔ برائے مہربانی اگر شریعت میرے لئے میرے شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے کوئی شق نکالتی ہے تو رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت مطلوب: بیوی کے بیان میں ’’گمان‘‘ سے کیا مراد ہے؟ غالب گمان یا مغلوب؟

جواب وضاحت: (از بیوی) میرا غالب گمان ہے کہ میرے شوہر نے پورا جملہ کہہ دیا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے حق میں دو طلاقیں واقع ہوئی ہیں۔ اور بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے بیوی کے لئے اس شوہر کے ساتھ رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

توجیہ:

مذكوره صورت میں شوہر کے بیان کے مطابق پہلی طلا ق کا واقع ہونا یقینی نہیں کیونکہ اس کے بیان کے مطابق جتنا جملہ اس نے بولا ہے کہ ’’میں نے تجھے طلاق‘‘طلاق واقع ہونے کے لئے کافی نہیں کیونکہ اس میں لفظِ ایقاع ’’دی‘‘ یا ’’دے دی‘‘ وغیرہ مذکور نہیں۔ اس کے بعد دو مرتبہ طلاق دینے کا شوہر اقرار کرتا ہے جس سے دو طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔

اور بیوی کو شوہر کا تینوں مرتبہ طلاق دینا یاد ہے جس کی وجہ سے اس کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔ جیسا کہ وہ پہلے بھی یہاں سے فتویٰ (۱۱/۳۶۰)حاصل کرچکی ہے۔

بدائع الصنائع (199/3) میں ہے:

ومنها عدم الشك من الزوج في الطلاق وهو شرط الحكم بوقوع الطلاق حتى لو شك فيه لا يحكم بوقوعه حتى لا يجب عليه أن يعتزل امرأته لأن النكاح كان ثابتا بيقين ووقع الشك في زواله بالطلاق فلا يحكم بزواله بالشك

فتاویٰ شامی (449/4) میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه

بدائع الصنائع (295/3) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved