• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’میں نے تمہیں طلاق دی،توں میرے ولوں فارغ ایں،میں نئیں رکھنا‘‘کہنے کاحکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شوہر نے اپنی بیوی کو حمل کی حالت میں اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے سامنے یہ کہا کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ صرف ایک دفعہ کہا اور پھر رجوع کر لیا، میاں بیوی ہنسی خوشی وقت گزارتے رہے یہاں تک کہ تقریبا سات سال کے بعد میاں بیوی میں تلخ کلامی ہوئی، شوہر نے غصے میں یہ کہا کہ ’’ توں میرے ولوں فارغ ایں‘‘ بیوی کو سمجھ نہیں آئی، اس نے پوچھا کیا کہا؟ تو شوہر نے دوبارہ یہی الفاظ کہے، پھر میاں بیوی کی صلح ہوگئی اس واقعے کے دو سال بعد میاں بیوی کی تلخ کلامی ہوئی، شوہر نے کہا مہمان آنے والے ہیں میں یہاں سے فارغ ہو جاؤں تو تمہارے ماں باپ کو بلاتا ہوں بیوی نے کہا میں اپنے بچوں کی خاطر رہنا چاہتی ہوں تو شوہر نے کہا ’’میں نئیں رکھنا‘‘ کیا شریعت کی نظر میں یہ دونوں اب بھی میاں بیوی ہیں یا ان کا تعلق ٹوٹ گیا ہے؟ اگر تعلق ٹوٹ گیا ہے تو رجوع ہو سکتا ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے کہ

(1) پہلی طلاق کے کتنے عرصے بعد شوہر نے رجوع کیا تھا؟

(2)  ’’توں میرے ولوں فارغ ایں‘‘ یہ جملہ شوہر نے کس نیت سے بولا تھا؟

(3) ’’توں میرے ولوں فارغ ایں‘‘ کہنے کے بعد  صرف صلح ہوئی تھی یا نکاح بھی ہوا تھا؟

جواب وضاحت:

(1) فورا رجوع کر لیا تھا۔

(2)میں حلفا کہتا ہوں کہ میں نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں کہے۔

(3) صرف صلح ہوئی تھی،نکاح نہیں ہوا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے، لہذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ: آئندہ شوہر کو  صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہو گا۔

توجیہ: شوہر کے اس جملے سے کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ ایک رجعی طلاق واقع ہوئی لیکن عدت کے اندر رجوع کر لینے کی وجہ سے نکاح باقی رہا،پھر غصے میں شوہر کے اس جملے سے کہ ’’ تو میرے ولوں فارغ ایں‘‘ (تو میری طرف سے فارغ ہے) ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی کیونکہ مذکورہ جملہ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہے جس سے لڑائی جھگڑے کی حالت میں نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔پھر بیوی کے پوچھنے پر مذکورہ جملہ دوبارہ بولنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ یہ پہلی طلاق کی خبر ہے جس پر قرینہ بیوی کا سوال ہے، اور اگر کوئی قرینہ نہ بھی ہوتا پھر بھی دوسری دفعہ ’’توں میرے ولوں فارغ ایں‘‘ کہنے سے مزید کوئی طلاق واقع نہ ہوتی، لان البائن لا یلحق البائن۔ نیز شوہر کے الفاظ ’’میں نئیں رکھنا‘‘ (میں نے نہیں رکھانا) بھی چونکہ کنایات طلاق میں سے ہیں،لہذا لان البائن لا یلحق البائن کے اصول کے تحت ان سے بھی کوئی نئی طلاق واقع نہ ہوگی۔

چنانچہ احسن الفتاوی (5/188) میں ہے:

’’سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے ’’تو فارغ ہے ‘‘ یہ کون سا کنایہ ہے؟ اگر اس بات کو دیکھا جائے کہ فارغ کا لفظ اپنے مفہوم و موارد میں خلیہ و بریہ کے مقارب ہے،کہا جاتا ہے یہ مکان یا برتن فارغ ہے، یہاں خالی کے معنی میں استعمال ہوا اور کہا جاتا ہے کہ فلاں مولوی صاحب مدرسہ سے فارغ کر دیے گئے ہیں یا ملازمت سے فارغ ہیں، یہاں علیحدگی اور جدائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو بائن اور بریہ کا ترجمہ ہے یا اس کے مقارب ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ فارغ کے لفظ سے خلیہ و امثالہا کی طرح حالت غضب میں طلاق نہ ہو لیکن اگر اس امر کو دیکھا جائے کہ ہمارے عرف میں فارغ کا لفظ سب کے لئے مستعمل نہیں، صرف جواب کو محتمل ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ حالت غضب میں طلاق ہوجائے ولو لم ینو، لیکن اگر یہ لفظ رد کا احتمال بھی رکھے تو پھر ہر حالت میں نیت کے بغیر طلاق نہ ہوگی یہ بندہ کے اوہام ہیں، حضرت والا اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔بینوا توجروا

الجواب باسم ملہم الصواب:  بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ فقط اللہ تعالی اعلم۔‘‘

فتاوی شامی(5/42) میں ہے:

وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved