• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

” میں طلاق دیتا ہوں نہیں "کہنے سے طلاق کا حکم

منکہ ***ولد*** کا ہوں ۔ جو کہ من مظہر کا نکاح بمطابق شریعت محمدی ہمراہ ماہ*** سے مؤرخہ 2020-02-04 کو سر انجام پایا  ۔ یہ کہ بعد ازاں ما بین فریقین حالات کشیدہ ہو گئے جس کی وجہ سے میں نے اپنی زوجہ مذکورہ کو اپریل 2022 میں ایک  ہی دفعہ میں کال پر مندرجہ ذیل الفاظ میں طلاق دی :

"میں*** کو طلاق دیتا ہوں”

"میں***کو طلاق دیتا ہوں”

"میں*** کو طلاق دیتا ہوں نہیں”

یہاں میں اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تیسری دفعہ جب میں نے  طلاق کے متذکرہ بالا الفاظ دہرائے تھے تو میں نے آخر میں نے لفظ  نہیں   بھی کہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ ایسا کہنے سے طلاق سے کسی حد تک بچا جا سکتا ہے ۔

مزید یہ کہ میرا تعلق اہل حدیث سے ہے ہمارے فرقے کے مطابق اگر ایک مجلس میں تین طلاقیں دی جائیں تو وہ ایک ہی شمار ہوتی  ہے ۔اور نہ صرف اہل حدیث بلکہ پاکستانی قانون کے مطابق بھی اگر ایک وقت میں تین طلاقیں دی جائیں تو وہ ایک ہی شمار ہوتی ہے ۔جبکہ یہاں اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ جب میں تیسری مرتبہ طلاق کے الفاظ دہرا رہا تھا تب میں نے آخر میں لفظ نہیں بھی کہا تھا ۔

ان تمام حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں چاہتا ہوں کہ میری اور ماہ نور کی صلح ہو جائے اور ہم ایک دفعہ پھر سے میاں بیوی کے خوبصورت رشتے میں آ جائیں  ۔

تنقیح : استفتاء لڑکی والوں کی طرف سے پوچھا گیا ہے جو  اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں اور فقہ حنفی کی روشنی میں مسئلہ جاننا چاہتے ہیں ۔متذکرہ بالا الفاظ  شوہر  نے فون پر  کسی تیسرے فرد کے سامنے کہے جو آخر میں لفظ نہیں کہنے کے بارے لا علمی کا اظہار کرتا ہے مگر اس پر حلفیہ بیان دینے کو راضی نہیں  جبکہ شوہر اپنی بات پر حلف اٹھانے کو تیار ہے ، بیوی سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اپنے شوہر کی بات پر اعتماد کا اظہار کیا کہ میرے شوہر نے یہی الفاظ کہے ہوں گے مجھے اس پر اعتماد ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فقہ حنفی کی رو سے مذکورہ صورت میں  تینوں  طلاقیں واقع ہو چکی ہیں   جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے ، لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے ۔

توجیہ : شوہر نے پہلے دو جملوں میں بیوی کو دو طلاقیں دے دیں اس کے بعد تیسرے جملے کے ان ا لفاظ  سے کہ ”  میں طلاق دیتا ہوں نہیں ”   تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی تھی ، اور طلاق کے واقع ہونے کے بعد لفظ ”  نہیں ”   سے اس اثبات  کی نفی کرنے سے نفی نہ ہو گی کیونکہ طلاق واقع ہونے کے بعد ختم نہیں ہو سکتی ۔بلکہ نہیں کا لفظ لغو شمار ہو گا اور تیسری طلاق کے واقع ہونے سے مانع نہ ہو گا ۔

بدائع الصنائع (3/34) میں ہے :

وذكر محمد في الجامع في رجل له امرأتان فقال لإحداهما ‌أنت ‌طالق ‌إن ‌دخلت ‌هذه ‌الدار ‌لا ‌بل ‌هذه فإن دخلت الأولى الدار طلقتا ولا تطلق الثانية قبل ذلك؛ لأن قوله لإحداهما أنت طالق إن دخلت هذه الدار تعليق طلاقها بشرط الدخول، وقوله: ” لا ” رجوع عن تعليق طلاقها بالشرط، وقوله ” بل ” إثبات تعليق طلاق هذه بالشرط، والرجوع لا يصح، والإثبات صحيح فبقيت فيتعلق طلاقها بالشرط

فتاوی شامی (4/423) میں ہے :

(والبدعي ثلاث متفرقة )  أو ثنتان بمرة أو مرتين  في طهر واحد (لا رجعة فيه) …………وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى ‌أنه ‌يقع ‌ثلاث

بدائع الصنائع (3/187) میں ہے :

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ‌ثلاثا ‌متفرقا ‌أو ‌جملة ‌واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved