• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میں تمہیں فارغ کرتا ہوں سے طلاق کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

شوہر کا بیان:

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں: یہ واقعہ 8 ماہ پہلے کا ہے کہ ہماری میاں بیوی کی لڑائی ہوئی جس میں، میں نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ بول دیے کہ ’’میں تمہیں فارغ کرتا ہوں، تم اپنے گھر والوں کو بلا لو‘‘  یہ جملہ غصے کی حالت میں بولا تھا اور طلاق کی نیت سے بولا تھا۔ اس وقت میری بیوی حمل سے تھی۔ اس کے بعد ہماری صلح ہوگئی یعنی ہم آپس میں میاں بیوی کی طرح رہتے رہے، کوئی تجدید نکاح وغیرہ نہیں کیا تھا۔ اب پندرہ دن پہلے پھر دوبارہ لڑائی جھگڑا ہوا تو اس میں، میں نے یہ الفاظ بول دیے تھے کہ ’’میں نے تمہیں فارغ کیا، میں نے تجھے طلاق دی، اب کر لو جو کرنا ہے‘‘ یہ بھی الفاظ طلاق کی نیت سے غصہ میں بولے گئے۔ کیا رجوع کی گنجائش ہے یا نہیں؟

بیوی کا بیان:

سات ماہ پہلے میرے شوہر نے جب مجھے یہ الفاظ بولے تھے تو میں حمل سے تھیں۔ پہلی بار یہ جملہ بولا کہ ’’میں نے تجھے فارغ کیا، بلالے اپنے گھر والوں کو‘‘ ۔کل یہ کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں نے تمہیں فارغ کیا‘‘ اور کہا کہ اب جو کرنا ہے کرلے ؟

وضاحت مطلوب: دوسری مرتبہ شوہر نے جو الفاظ بولے تھے وہ دوران حمل ہی بولے تھے یا وضع حمل کے بعد؟

جواب ضاحت: دوسری مرتبہ والے الفاظ وضع حمل کے تقریبا ساڑھے تین ماہ بعد کہے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں پہلی دفعہ کے الفاظ سے ہی ایک طلاق بائن واقع ہوچکی تھی جس سے نکاح ختم ہوگیا تھا۔ وضع حمل کی وجہ سے عدت بھی گزر چکی ہے اس کے بعد بغیر نیا نکاح کیے رہنا جائز نہیں تھا، گناہ تھا جس پر توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے البتہ اب اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے آٹھ ماہ پہلے غصے کی حالت میں طلاق کی نیت سے جو یہ الفاظ بولے تھے کہ ’’میں تمہیں فارغ کرتا ہوں‘‘ یہ الفاظ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں جن سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی تھی اور طلاق بائن کے بعد بغیر تجدید نکاح کے رجوع نہیں ہوتا لہٰذا شوہر کا تجدید نکاح کے بغیر رجوع کرنا درست نہیں تھا۔ بیوی چونکہ حاملہ تھی اور حاملہ کی عدت وضع حمل ہوتی ہے لہٰذا وضع حمل ہونے پر عدت ختم ہوگئی اور بیوی شوہر کے لئے اجنبیہ ہوگئی۔ شوہر نے جب دوبارہ یہ الفاظ بولے کہ ’’میں نے تمہیں فارغ کیا، میں نے تجھے طلاق دی، اب کر لو جو کرنا ہے‘‘ تو اس وقت نکاح مکمل طور سے ختم ہونے کی وجہ عورت طلاق کا محل نہ رہی تھی لہٰذا یہ الفاظ بے اثر رہے اور ان سے کوئی نئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

احسن الفتاویٰ (ج۵، ص۱۸۸) میں ہے:

سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے ’’تو فارغ ہے‘‘ یہ کونسا کنایہ ہے؟ اگر اس بات کو دیکھا جائے کہ فارغ کا لفظ اپنے مفہوم وموارد میں خلیہ وبریہ کے مقارب ہے، کہا جاتا ہے یہ مکان یا برتن فارغ ہے، یہاں خالی کے معنی میں استعمال ہوا اور کہا جاتا ہے کہ فلاں مولوی صاحب مدرسہ سے فارغ کر دیے گئے ہیں یا ملازمت سے فارغ ہیں یہاں علیحدگی اور جدائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو بائن اور بریہ کا ترجمہ ہے یا اس کے مقارب ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ فارغ کے لفظ سے خلیہ و امثالہا کی طرح حالتِ غضب میں طلاق نہ ہو لیکن اگر اس امر کو دیکھا جائے کہ ہمارے عرف میں فارغ کا لفظ سبّ کے لیے مستعمل نہیں، صرف جواب کو محتمل ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ حالت غضب میں طلاق ہو جائے ولولم ینو، لیکن اگر یہ لفظ رد کا احتمال بھی رکھے تو پھر ہر حالت میں نیت کے بغیر طلاق نہ ہوگی۔ یہ بندہ کے اوہام ہیں حضرت والا اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔ بینوا توجروا

الجواب باسم ملہم الصواب: بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ  بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔

در مختار مع رد المحتار (523/4) میں ہے:

(و) يقع (بباقيها) أي باقي ألفاظ الكنايات المذكورة …… (بائن إن نواها….

نیز (29/5) میں ہے:

(هي [الرجعة] استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ……. (إن لم يطلق بائنا) فإن أبانها فلا

قوله: (إن لم يطلق بائنا) هذا بيان لشرط الرجعة، ولها شروط خمس تعلم بالتأمل شرنبلالية ……. قلت: هي أن لا يكون الطلاق ثلاثا في الحرة………. ولا كناية يقع بها بائن……. قوله: (فلا) أي فلا رجعة

نیز (42/5) میں ہے:

(وينكح) مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع

نیز (192/5) میں ہے:

(و) في حق (الحامل) مطلقا….. (وضع) جميع (حملها) لأن الحمل اسم لجميع ما في البطن. وفي البحر: خروج أكثر الولد كالكل في جميع الأحكام إلا في حلها للأزواج احتياطا

قوله: (في جميع الأحكام) أي في انقطاع الرجعة ووقوع الطلاق

نیز (419/4) میں ہے:

قوله: (ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة  عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved