• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لڑائی کےدوران شوہرکے منہ سے نکل گیا کہ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”اس کا حکم

استفتاء

شوہر کا بیان:

میری بیوی دماغی مریضہ ہے غصہ کے وقت اس کو دورہ پڑ جاتا ہے گھر میں لڑائی ہوئی تو بیوی کو دورہ پڑ گیا اور گالیاں دینے لگ گئی کافی دیر لڑائی ہوتی رہی میرا گریبان پکڑ لیا تو مجھے بہت زیادہ غصہ آیا تو میرے منہ سے نکل گیا کہ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”ایک دفعہ کہا تھا۔اس وقت کوئی خلاف عادت کام توڑ پھوڑ وعیرہ نہیں کیا تھا۔ہم اس کے بعد اکٹھے ہی رہتےرہےہیں اور رجو ع ہوگیا تھا پھر اس کے ایک سال بعد اسی طرح لڑائی ہوئی تو بیوی نے غصہ کی وجہ سے دورہ پڑنے کی وجہ سے میرا ہاتھ کاٹا تو میں نے شدید غصے میں کہہ دیا کہ”تمہیں طلاق ہوئی”یہ بھی ایک ہی دفعہ بولا تھا پھر ہمارا رجوع ہوگیا۔پھر اس کے تقریبا چھ یا سات ماہ بعد اسی طرح کی لڑائی ہوئی تو بیوی نے کہا طلاق دو تو میں نے کہا کہ "دیتا ہوں صبر کر "یہ نہیں کہا کہ دے دی ۔اس کے علاوہ میں نے کچھ نہیں کہا ۔ میری بیوی دماغی مریضہ ہے الٹے سیدھے خیالات سوچتی رہتی ہے دوا ئیاں بھی کھا رہی ہے لیکن غصے کی کیفیت ٹھیک نہیں ہو رہی۔

بیوی کا بیان:

پہلے واقعہ میں مجھے شک ہے کہ شوہر نے طلاق کا کہا تھا یا نہیں لیکن دوسری مرتبہ شوہر نے "طلاق دیتا ہوں” کہا تھا اور تیسری مرتبہ "طلاق ہوئی "کہا تھا ہر لڑائی میں میری دماغی حالت بہت خراب ہوتی ہے جب مجھے غصہ آتا ہے تو دورہ پڑ جاتا ہے توڑپھوڑ شروع کر دیتی ہوں میرے شوہر ہمیشہ میرا خیال کرتے ہیں مجھ سے بہت محبت کرتے  ہیں میں ہی شوہر کو مارتی ہوں میرے دماغ  میں یہی وسوسے اور خیالات آتے ہیں کہ پتہ نہیں ہمارا اکٹھے رہنا گناہ تو نہیں۔ میرے شوہر رشتہ داروں کے سامنے قرآن بھی اٹھاچکے ہیں کہ انہوں نے دودفعہ ہی طلاق دی ہے تیسری دفعہ نہیں کہا میرا بھی یہی خیال ہے کہ میرے شوہر سچے ہیں۔میں وسوسوں کا شکار ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں تیسری واقع نہیں ہوئی اور چونکہ دونوں طلاقیں رجعی تھیں اس لئے رجوع ہو جانے کی وجہ سے نکاح برقرار ہے۔آئندہ شوہر کے لئے صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں شوہر کے بیان کے مطابق جب پہلی دفعہ لڑائی کے دوران شوہر نے بیوی کو کہا کہ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی لیکن رجوع کرنے کی وجہ سے نکاح برقرار رہا اور دوسری دفعہ لڑائی کے دوران جب شوہر نے کہاکہ”تمہیں طلاق ہوئی”اس سے ایک اور رجعی طلاق واقع ہوگئی اور پھر دوبارہ رجوع کرنے کی وجہ سے نکاح برقرار رہا۔اور تیسری دفعہ جب بیوی نے کہا کہ مجھے طلاق دو اور شوہر نے کہ "دیتاہوں صبر کر”اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ اس جملہ میں مستقبل میں طلاق دینے کےارادے کا اظہار ہے جس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

مذکورہ صورت میں چونکہ لڑائی کے دوران بیوی کی دماغی حالت درست نہیں تھی اور وہ وسوسوں کا شکار ہے نیز اسے شوہر کے بیان سے اتفاق بھی ہے اس لئے اس کے بیان میں تیسرے واقعے میں جو طلاق کا ذکر ہے اس کا اعتبار نہ ہوگا۔

رد المحتار (4/ 446)میں ہے:(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه)ولو بالفارسية(كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)…..(ويقع بها)أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح……(واحدة رجعية،وإن نوى خلافها).ہندیہ (1/470) میں ہے:وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.البحر الرائق (3/ 439)میں ہے:وليس منه أطلقك بصيغة المضارع إلا إذا غلب استعماله في الحال كما في فتح القدير.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved