• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مار پیٹ اور تشدد کی بنیاد پر خلع

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ!

میں امروزش ولد فیاض محمود، میری آج سے چھ سال پہلے سکندر ولد جاوید محمود سے شادی ہوئی، میری شادی کے ہفتے بعد ہی وہ (سعودی عرب) واپس چلا گیا، اور باہر جاتے ہی رویہ تبدیل ہونے لگ گیا، صحیح دو سال بعد وہ پاکستان واپس آیا تو رویہ تبدیل تھا اور ہر بات پر گالم گلوچ کرتا، مارتا پیٹتا تھا اور گھر سے نکال دیتا تھا، نشہ میں ہر وقت رہتا تھا اور نشہ کی حالت میں میرے ساتھ ناانصافی کرتا تھا، میں نے چھ سال تک اس رشتے کو بچانے کی کوشش کی مگر وہ سمجھتا نہیں تھا۔ سکندر نے بعض اوقات میری جان بھی لینے کی کوشش کی، کبھی گلا گھونٹ کر تو کبھی پستول (pistol) ماتھے پر رکھ کر۔ آخری بار مجھے اکتوبر کو گھر سے باہر نکال دیا اور گھر میں خنجر سے حملہ کیا جس کی وجہ سے میں بہت ڈر گئی ہوں، وہ مجھے اتنا مارتا ہے کہ جسم پر نشان بھی ہوتے ہیں، خون بھی نکلتا ہے اور نیل  بھی پڑے ہوتے ہیں،  کئی بار جان لینے کی کوشش بھی کی ہے، مجھے اس سے اپنی جان کا خطرہ ہے، میں واپس نہیں جانا چاہتی، اور میرا گزارا اب ناممکن ہے۔  ان وجوہات کی وجہ سے عدالت سے خلع لیا ہے جس کے کاغذات کی کاپی ساتھ لف ہے۔ کیا خلع ہوچکا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعی شوہر بیوی کو اس قدر مارتا تھا کہ جسم پر نشان اور نیل پڑجاتے تھے اور  خون نکلنے لگتا تھا اور کئی دفعہ شوہر نے بیوی کی جان تک لینے کی کوشش کی ہے جس کی تفصیل سوال میں مذکور ہے تو بیوی کے لیے ان وجوہات کی بناء پر عدالت سے فسخِ نکاح کروانا درست ہے۔ خلع کے منسلکہ کاغذات کا مطالعہ کیا گیا تو ان میں شوہر کےبیوی کو  بلاوجہ وحشیانہ طریقے سے مار پیٹ کرنے کا ذکر ہے لہٰذا عدالت کے فیصلے کے بعد یہ نکاح فسخ ہوگیا، بیوی عدت گزار کر کہیں اور نکاح کرسکتی ہے۔

فتاویٰ عثمانی 2/ 471 میں ہے:

’’[عدالت کا] فیصلہ احقر نے پڑھا، اس فیصلے میں شوہر کے ضربِ شدید اور نا قابل برداشت جسمانی اذیت رسانی کی بنیاد پر مسماۃ ۔۔۔۔ کا نکاح فسخ کر دیا گیا، فسخ نکاح کی [یہ] بنیاد مالکی مذہب کے مطابق درست ہے، اور فقہاء حنفیہ نے ضرورت کے موقع پر اس مسلک کو اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔‘‘

شرح مختصر الخلیل للخرشی (4/9) میں ہے:

(ص) ولها التطليق بالضرر ولو لم تشهد البينة بتكرره: (ش) يعني أنه إذا ثبت بالبينة عند القاضي أن الزوج يضارر زوجته وهي في عصمته ولو كان الضرر مرة واحدة فالمشهور أنه يثبت للزوجة الخيار فإن شاءت أقامت على هذه الحالة وإن شاءت طلقت نفسها بطلقة واحدة بائنة لخبر {لا ضرر ولا ضرار}

حاشیۃ الدسوقی (2/345) میں ہے:

قوله: (ولها التطليق بالضرر) أي لها التطليق طلقة واحدة وتكون بائنة كما في عبق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved