• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مریض کو حرمت مصاہرت کاشبہ پڑجانا

استفتاء

مفتی صاحب مسئلہ کچھ اس طرح ہے کہ میرے والد صاحب ایک گورنمنٹ ٹیچر تھے جو اب ریٹائرڈ ہوگئے ہیں ۔ ان کی شروع سے عادت تھی کہ وہ بہت وہم کرتے تھے،پاکی ناپاکی کا، بفضل اللہ وہ جلد دور ہوگیا۔ انہوں نے  تقوی کے ساتھ زندگی گذاری شروع سے تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتےہیں۔ اور محلے کے امیربھی ہیں۔ ان کی یہ عادت شروع سے ہے کہ جو وہ سوچ لیتے ہیں اس سے ہٹتے نہیں۔ اس کام کو کرکے چھوڑتے ہیں۔ اور کہتےتھے کہ جو میری عقل ہے وہ کسی کی نہیں، بڑے بڑے لوگوں کو بھی اپنے سے کم سمجھتے تھے ۔ اب بھی سمجھتے ہیں بات یہ  ہے کہ دوسال پہلے دو تین باتیں ایسی ہوئیں جو ان کی منشاء کے خلاف تھیں۔ پہلی بات یہ کہ جب ان کے بڑے بھائی ریٹائرڈ ہوئے تو ان کے بیٹے جوان تھے کماتے تھے لیکن جب والد صاحب ریٹائرڈ ہوئے تو ان کے بیٹے چھوٹے تھے کماتے نہیں تھے۔ تووالد صاحب نے آمدن کے لیے اپنے بقایا میں سے گھر کے اوپر والے حصے کو تعمیر کیا  تاکہ کرائے پردوں۔ اس پرپیسے خرچ ہوئے جس سے ان کو یہ بات بہت محسوس ہوئی کہ میرے سارے پیسے لگ جائیں گے۔ انہوں نے گھر میں ہر وقت بولنا شروع کردیا کہ سب کمائیں، بیٹیاں بھی کمائیں بیٹے بھی، بڑا بیٹا نوکری پرلگا لیکن نوکری ابھی نئی تھی تنخواہ زیادہ نہ تھی ۔ چھوٹا بیٹا عالم بن رہاتھا،پانچ جماعتیں پڑھ کر حفظ کیا تھا ،سکول کا زیادہ پڑھا ہوانہ تھا۔ انہوں نے اس کو بھی کمانے کو کہا۔ اور اس نے پڑھائی چھوڑدی ،پڑھاہواتھا نہیں نوکری کہاکرتا۔ اس کو کام پرڈالا وہاں سے بھی پیسے کم ملتے تھے۔ بس پیسے کی محبت ایسی آئی تھوڑی آمدن پر راضی نہ ہوتے تھے(حالانکہ والدہ نے اولاد کی تربیت اس طرح کی کہ سب کوسادہ بہت سادہ زندگی گزارنے کی تربیت  دی نہ کوئی اعلی فرمائشیں کسی اولاد نے کبھی کی جو کھانے کو دیا کھالیا جو پہننے کو جیسا دیا وہ پہن لیتے ہیں ساری اولاد) تو تنگ آکر بیٹوں نے کہا کہ پھر کاروبار کے لیے پیسے دیں ،پیسے بھی نہ دے کہ پیسے  کم ہوجائیں گے ۔ا یک وجہ یہ کہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد پیسے لگ گئے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ پیسے تولگانا نہیں چاہتے چاہتے تھے ۔بس یہ چاہتے تھے کہ پیسے آئیں جائیں نہ۔ اسی دوران بڑے بیٹے نے اپنی تنخواہ سے پیسے جوڑے کچھ پیسے فیکٹری سے بونس کے طور پر ملے۔ اس نے ضد کرکے کہا مجھے موٹرسائیکل لے کردیں،آدھے پیسے اس نے ڈالے ،آدھےوالد صاحب سے ضد کرکے کہ میں واپس کردوں گا۔لے لیے اور مہنگی والی موٹرسائیکل خریدی اس چیز کا اثر لیا کہ میراتیس ہزار لگوائے، سستی موٹر سائیکل کیوں نہ لی۔ تیسری وجہ یہ کہ ان کا ایک بھانجا ہے اور وہ والد صاحب کا داماد بھی ہے ۔ وہ کافی امیر ہے وہ والد صاحب  کی کافی مدد کردیتا تھا۔ کہ اگرکہ اگر کوئی مشکل ہوئی پیسے لگادیے ، شادی بیاہ پر کافی پیسے دیتا،والد صاحب اس کے مشورے سے چلتے تھے۔ داماد (بھانجے کی والدہ بیمار ہوگئیں جو والدصاحب کی بہن بھی تھیں، والدصاحب ان کی تیمارداری کے لیے اپنے بھانجے کی منشاء کے مطابق نہ کرسکے ، ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ تو وہ ناراض ہوگئے ۔ ایک دو اسی طرح کی باتیں اور ہوئیں کہ ان کے بھائیوں کی مسجد میں کوئی بات مشورے کے دوران نہ مانی ،تیسری کہ وہ والد صاحب کی دوسری بیٹی کا رشتہ اپنے بھتیجے کے لیے مانگتے تھے والدہ نہ مانی۔ اس طرح وہ ناراض ہوگئے ، دو سال ہوگئے ابھی تک ناراض ہیں۔ اب والد صاحب نے اس کا بھی اثر لیا کہ وہ میری مددکرتاتھا ہرکام میں میرے پیسے نہیں لگتے تھے۔

غرض مفتی صاحب اس طرح باتیں ہیں اور وہ یہ ہی دہراتے ہیں کہ ان تینوں کاموں کی وجہ سے میرا ایمان سلب ہوا لیکن جب ان کو شرم دلائی جاتی ہے کہ پیسے  اور بھانجے کی وجہ سے ایمان سے خالی ہورہے ہیں تو پھر وہ دوسری طرف آجاتےہیں۔ وہ یہ کہ رائیونڈ میں کہیں بیان میں سنا کہ حرام کماکر کھانے والے کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ والدصاحب پیسے تو پہلے ہی بچاناچاہتے تھے اپنی پچھلی زندگی پر نظرڈالی اور یہ کہنا شروع کردیا کہ میری کمائی حرام کی ہے ۔گھر سے روٹی کھانا چھوڑدی ہروقت بولتے رہتےہیں۔ اور اونچی اونچی ہائے ہائے کرتے ۔ہاتھ پر ہاتھ مارتے اور کہتے کہ میری کمائی حرام میری توبہ نہیں میں نے حرام کمایا بچپن سے لے کر اب تک کے گناہ یاد کرکے کہ میں نے جھوٹی قسمیں کھائیں ،حقوق العباد پورے نہیں کیے۔ اللہ مجھے معاف نہیں کرے گا۔ قرآن کی تفسیریں، بہشتی زیور، اورا س کے علاوہ اور کتب پڑھ پڑھ کر مسائل نکالتے رہے۔جامعہ اشرفیہ لے کر گئے تین بار انہوں نے فتویٰ دیا کہ حلال ہے سب گناہوں کی توبہ ہے ۔ لیکن نہیں مانے اور کہا وہ صحیح نہیں بتاتے وہ تو لوگوں کی عاقبت خراب کرتےہیں۔ وہ تو مجھ سے چھوٹے ہیں۔ وہ کہاں جانتے ہیں، میں  غیبی نظام کی حرکت کو سمجھتاہوں میں نے جو کتابوں سے پڑھا ہے وہ صحیح ہے۔ کراچی مفتی تقی عثمائی صاحب کے پاس بھی بھیجا ۔ ان کا فتوی بھی نہیں مانا۔ ایک دودن پہلے  ان کے منہ سے نکلا بھی ہے کہ اگر میں سب کچھ نہ کرتاتو تم لوگ مجھے لوٹ لیتے۔ گھر میں ایسا کرتے تھے کہ ہروقت بولنا وغیرہ میں  نے مکان بیچ دینا ہے  حکومت کے پیسے واپس کرنے ہیں ۔

باہربالکل ٹھیک رہتےہیں۔ چالیس دن لگائیں ہیں جوڑپرگئے تھےمحلے میں بھی گشت کراتے لیکن گھر میں داخل ہوتےہی وہی روٹین بولنے کی۔ کہ میرا ایمان سلب ہوگیا وغیرہ۔ لیکن ان کو گھر میں بھی پتاہے کہ کیا ہورہا ہے کون کیا کررہا ہے۔ میری مرضی کے بغیر کیا کام ہورہاہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ اسی دوران انہوں نے ایک یہ بھی مسئلہ بہشتی زیور سے پڑھا کہ جو مرد اپنی بچی کو چہرہ پر بوسیدہ دے شہوت یا غیرشہوت سے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا یعنی والد صاحب نے کہ میں نے اپنی چھوٹی بیٹی کا منہ چوماتھا،میری بیوی مجھ پر حرام ہوگئی اور والدہ سےکہا کہ تم مجھے پرحرام ہوگئی۔ تم میری بیوی نہیں رہی۔ اس مسئلے کے بارے میں مفتی صاحبان سے رجوع کیا انہوں نےکہا کہ نہیں ایسی بات نہیں۔ بڑی مشکل سے یہ سمجھائی کہ یہ مسئلہ کچھ اور طرح ہے۔

کچھ دنوں بعد پھر کوئی کتاب پڑھ رہے تھے  تو اس میں کوئ مسئلہ پڑھا تو اس پر والدہ سے کہا کہ تم نے پتہ نہیں کس سے پوچھا ہے تم تو ایسے ہی رہ رہی ہو،وغیرہ وغیرہ۔

اب تیسری بار جب پندرہ دن کا جوڑتھا اس پر گئے توجاتے ہوئے والدہ سے کہہ گئے کہ ” تم تو میری بیوی نہیں رہی تم تو مجھ پر حرام ہو تم پتہ نہیں کس سے پوچھ کر مسئلہ پر عمل کررہی ہو” ان کا ردعمل بھی ایسا ہے کہ والدہ سے دور رہتے ہیں ۔ کچھ دن پہلے والدہ (کافی بیمار رہتی ہیں) ان کے بازو میں درد تھا ان کو کافی درد ہوا دبانے والا کوئی نہ تھا ۔ والد صاحب سے کہا کہ دبادیں تو نہیں دبایا اور کہا کہ میں احتیاط کرتاہوں، جب والدہ غصہ میں بولیں کے مفتی صاحبان سے پوچھا بھی ہے آپ کیوں یقین نہیں کرتے تو والد صاحب کہتے ہیں کہ تم نے مفتی صاحب سے جو پوچھا ہے تم اس پر چلو میں تو ویسے ہی احتیاط کرتاہوں۔ میں نے جو خود سمجھا ہے میرے نزدیک وہ صحیح ہے ۔ہر بات میں یہی کہتےہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ گھر والے کہتےہیں کہ ان کا دماغ خراب تھا ، انہوں نے ذہنی اثرلیا ہواہے  وہم ہے۔ لیکن باہر ٹھیک گشت کرتے ،سہ روزہ لگاتے وغیرہ ۔ ان سے کہا جا ئے کہ آپ باہر ٹھیک رہتے ہیں باہر گناہ یاد نہیں آتے تو کہتے ہیں کہ میں نے بدنام ہونا ہے۔ میں تو ویسے ہی نمازیں پڑھتاہوں وغیرہ ، دل سے کوئ عمل نہیں کرتا۔ ایک طرف کہتےہیں حرام کھانے سے اور جھوٹی قسموں سے ایمان سلب ہوا دوسری طرف کہتےہیں کہ ان تین باتوں نے میراایمان سلب کردیا(موٹرسائیکل کا لینا ، بھانجے کا ناراض ہونا، رشتہ نہ کرنا وغیرہ)۔ مفتی صاحب اب مسئلہ یہ ہے کہ طلاق ہوئی یا نہیں کیونکہ دماغ خراب شمار کیسے کیے جائے انہوں نے دو دن پہلے ہی سب کے سامنے کہا کہ اگر میں یہ سب کچھ نہ کرتا تو میری اولا میرے سارے پیسے لوٹ لیتی۔

براہ کرم رہنمائ فرمائیں کہ ان کے الفاظ بھی یہی ہیں بارہا بارکہہ چکے ہیں اور ردعمل بھی یہی ہے  کہ  والدہ اور والد میں جدائی ہوگئی یا نہیں نکاح برقرار رہے گا؟ یا نہیں؟۔تفصیلی رہنمائی فرمائیں میں نے بہت کوشش کی کہ اس طرح  لکھوں کہ بات بھی ساری ہوجائے اور آپ کو سمجھ بھی آجائے ۔جلداز جلد ہوسکے تو جواب مرحمت فرمائیں۔ اللہ  آپ کے درجات بلند فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔مذکورہ صورت میں نہ حرمت مصاہرت ہوئی اور نہ طلاق ہوئی ہے۔

۲۔ کسی اچھے ماہر نفسیات یا ذہنی امراض کے معالج سے علاج کروائیں بعض مریض ایسے بھی ہیں جو ایک ماحول میں متاثر ہوتے ہیں دوسرے میں نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved