• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مشکوک نکاح کے بعد تین طلاق

استفتاء

لڑکی اور لڑکا دونوں ایک ہی شہر کے ایک ہی علاقے کے رہنے والے تھے۔ اس نکاح کے لیے لڑکا اور لڑکی کے والدین کسی صورت میں نہیں مان رہے تھے بلکہ ایک دوسرے کے مخالف ہوگئے تھے۔ نکاح کے وقت لڑکی نے لڑکے کے دوست کو ٹیلی فون پر اپنا وکیل اور گواہ مقرر کیا تھا۔ لڑکی اس لڑکے کو جانتی تک نہ تھی لیکن اس کو وکیل  مقرر کرتے وقت ان کی ٹیلی فون کی بات چیت کو دو اور لوگوں نے بھی سنا تھا۔ اس کے بعد مولوی صاحب نے نکاح پڑھایا تھا اس نکاح کے دوران دولہا، دلہن کا وکیل نکاح خواہ اور ایک اور مولوی صاحب بیٹھے تھے۔ اس کے بعد لڑکی کے وکیل نے قبول ہے بول دیا تھا حق مہر جو کہ لڑکے نے بعد میں لڑکی کو دے دیا تھا۔ لڑکی کی عمر تقریباً چوبیس سال تھی اور لڑکے کی عمر تقریباً ستائیس سال تھی۔ لڑکی کی ذات راجپوت سیال اور لڑکے کی ذات گوجرتھی۔ لڑکے والے لڑکی سے زیادہ مال دار ہیں دنیاوی لحاظ سے۔ لڑکی لڑکے سے بہتر ہے دینی لحاظ سے ( لڑکی صوم و صلوٰة کی پابند ہے لڑکا نہیں)، لڑکی کے والد کسی صورت بھی اس نکاح کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ میں اس نکاح کو مانتا ہی نہیں ہوں۔

لڑکی لڑکے کی کچھ ناراضگی ہوگئی لڑکی نے کہا کہ مجھے طلاق دے دو بس۔ غصے میں آکر اب لڑکا لڑکی کو تین دفعہ ‘‘طلاق، طلاق، طلاق دیتا ہوں’’ بول دیا۔ اس وقت لڑکی، لڑکی کی والدہ، لڑکا، لڑکے کی والدہ، لڑکی کی والدہ کہتی تھی کہ اگر لڑکی اور لڑکا باہر چلے جائیں تو میں ان کے ابو کو منالوں گی۔لڑکی کے والد ابھی تک اس نکاح کو کسی صورت بھی تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے ابھی تک یہی الفاظ ہیں کہ یہ سب ڈرامہ ہوا ہے ہمیں اس مولوی سے ملواؤ تاکہ ہم اس کی خوب دھلائی کریں تاکہ وہ آئندہ ایسا نہ کرے۔

نکاح خواں نے لڑکے سے اور لڑکی کے وکیل سے پوچھا کہ ( باری باری) آپ کو یہ نکاح قبول ہے ان دونوں نے تین دفعہ بولا ’’قبول ہے، قبول ہے‘‘۔ نکاح کے بعد لڑکی اور لڑکے کا میاں بیوی والا تعلق قائم ہوچکا تھا۔ اب سوال پوچھنے کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ شاید ان کے نکاح کو برقرار رکھا جاسکے۔ یعنی ہوسکتا ہے کہ طرفین کے اہل خانہ رضامند ہوجائیں۔

نکاح کی مجلس میں درج ذیل چار گواہ موجود تھے: (۱) لڑکی کا وکیل، جو کہ لڑکے کا دوست بھی تھا۔ (۲) نکاح خواں مولوی صاحب۔ (۳) لڑکا۔ (۴) ایک اور آدمی۔

مولوی صاحب نے لڑکی کے وکیل سے کہا ’’ آپ کو اس لڑکے کے ساتھ مبلغ دس ہزار روپے مہر کے عوض یہ نکاح قبول ہے۔‘‘ لڑکی کے وکیل نے کہا ’’ قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے‘‘۔ پھر مولوی صاحب نے لڑکے سے کہا ’’ آپ کو فلاں لڑکی سے مبلغ دس ہزار روپے حق مہر یہ نکاح قبول ہے؟ ‘‘ لڑکے نے کہا ’’ قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے‘‘۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اول تو یہ نکاح مشکوک ہے۔ دوسرے نکاح درست بھی ہو تو تین طلاقیں ہوگئی ہیں اور نکاح ختم ہوگیا تجدید نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved