• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسئلہ طلاق ثلاثہ میں رجوع کی ایک صورت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

1۔ کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں یہ الفاظ بولے تھے (پشتو میں): ’’چہ یو پہ ما طلاقہ یے، دوا پہ ما طلاقہ یے، درے پہ ما طلاقہ یے‘‘، یہ الفاظ کہتے ہوئے مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ میں نے کیا کہا ہے لیکن بعد میں یہ محسوس ہوا کہ میں نے بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ اس کے علاوہ خلاف معمول کوئی حرکت صادر نہیں ہوئی تھی۔

سائل کی طرف سے وضاحت:  سوال میں جو لکھا ہے کہ ’’یہ الفاظ کہتے ہوئے مجھے کچھ پتہ نہیں چلا‘‘ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت کچھ معلوم نہیں تھا کہ میں نے یہ الفاظ کہے ہیں یا نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ الفاظ کہتے وقت یہ تو معلوم تھا کہ میں کیا الفاظ بول رہا ہوں، لیکن طلاق دینے کا ارادہ نہیں تھا، غصہ کی وجہ سے یہ الفاظ کہہ دیے تھے۔

2۔ نیز اگر رجوع کی کوئی بھی صورت ہو وہ بتا دیں، میاں بیوی اس کے لیے تیار ہیں۔ بیوی کو حمل وغیرہ نہیں ہر ماہ ماہواری آتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں پشتو کے الفاظ: ’’چہ یو پہ ما طلاقہ یے، دوا پہ ما طلاقہ یے، درے پہ ما طلاقہ یے‘‘ (جن کا اردو میں ترجمہ یہ بنتا ہے کہ ’’تم میرے اوپر ایک طلاق ہو، تم میرے اوپر دو طلاق ہو، تم میرے اوپر تین طلاق ہو‘‘) پشتو زبان میں طلاق کے لیے استعمال ہوتے ہیں اس لیے مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں اور بیوی شوہر کے لیے حرام ہو گئی ہے۔نیز اگرچہ شوہر غصہ کی حالت میں طلاق دینے کا دعویٰ کر رہا ہے لیکن مذکورہ صورت میں غصہ اس درجہ کا نہیں جس میں طلاق واقع نہ ہو۔

حاشیہ ابن عابدين (4/ 443)میں ہے:

قوله (ولو بالفارسية) فما لا يستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية وما استعمل فيها استعمال الطلاق وغيره فحكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام ۔بحر۔

دوسری جگہ (4/ 450)میں ہے:

الدر: و من الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، و الحرام يلزمني، وعلي الطلاق، و علي الحرام فيقع بلا نية للعرف، وفي الشامية:  قوله ( فيقع بلا نية للعرف ) أي فيكون صريحا لا كناية بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية ولا ينافي ذلك ما يأتي من أنه لو قال طلاقك علي لم يقع لأن ذاك عند عدم غلبة العرف، وعلى هذا يحمل ما أفتى به العلامة أبو السعود أفندي مفتي الروم من أن علي الطلاق أو يلزمني الطلاق ليس بصريح ولا كناية أي لأنه لم يتعارف في زمنه ولذا قال المصنف في منحه إنه في ديارنا صار العرف فاشيا في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره فيجب الإفتاء به من غير نية كما هو الحكم في الحرام يلزمني وعلي الحرام وممن صرح بوقوع الطلاق به للتعارف الشيخ قاسم في تصحيحه وإفتاء أبي السعود مبني على عدم استعماله في ديارهم في الطلاق أصلا لا يخفى اه

2۔ رجوع کی صورت یہ ہو سکتی ہے جب مذکورہ صورت میں عدت (تین ماہواریاں) گذر جائے عورت دوسری جگہ نکاح کرے۔ دوسرا شوہر صحبت کے بعد طلاق دے ، اس کے بعد دوبارہ عدت (تین ماہواریاں)گزر جائے تو اب پہلے والے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved