• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسئلہ طلاق ثلاثہ

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گزارش ہے کہ مجھے ایک مسئلہ میں رہنمائی کی ضرورت ہے جس پر میری ازدواجی زندگی کا انحصار ہے ،بہت زیادہ پس منظر اور تمہید کے بغیر عرض کرتا ہوں کہ میری شادی 2010 میں ہوئی پھرگھریلومسائل کی وجہ سے پہلے بیٹے کی پیدائش پر میں نے طلاق اول لکھ کر اپنی زوجہ کو بھجوادی ڈراوے کے طور پر،اس کے بعد ہماری صلح ہوگئی دوماہ بعد پھر کسی بات پر  ایک جھگڑے کے دوران ہاتھا پائی ہوئی، لڑائی لڑکی کے بھائی اور میرے درمیان  ہوئی جس پرمیں نے اکٹھی ایک مجلس میں تین طلاقیں منہ سے ادا کر  دیں ،اس دوران وہ دوسرے بیٹے کی امید سے تھی،جوطلاق کے بعد 2012 میں پیدا ہوا، اس کے بعد سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہے اپنی مطلقہ سے ۔لیکن اس دوران اس نے کافی کوششیں دوبارہ نکاح اورصلح کی میرے ساتھ کیں لیکن میرادل نہیں مانا مگر چونکہ ہمارا معاشرہ بڑا بے رحم ہے اور بچوں والی عورت کو قبول بھی نہیں کرتا اور اس کی کہیں شادی بھی نہ ہو سکی میری سابقہ بیگم بہت خوبصورت بھی ہے اور میں اس سے اپنی پسند سے دوبارہ شادی بھی کرنا چاہتا ہوں، برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیں وہ دس سال سے گھر بیٹھی ہوئی ہے، دین اسلام میں کسی واقعہ، حدیث کے پیش نظر ہم دوبارہ ایک ہوسکتے ہیں؟ اور اللہ بھی ہم سے راضی رہےکسی گناہ کے کام کے بغیر،تو وہ رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت مطلوب ہے کہ:

1۔ طلاق اول کا نوٹس مطلوب ہے۔

2۔ دوسری دفعہ ایک ہی مجلس میں جو تین طلاقیں دی ہیں ان کے الفاظ کیا تھے؟

3۔ پہلے نوٹس کے بعد دوسری دفعہ طلاق دینے میں دورانیہ کتنا تھا؟

4۔ نیز اس دورانیہ میں بیوی کو تین ماہواریاں آچکی تھیں یا نہیں؟

جوابِ وضاحت:

1۔ طلاق اول کا نوٹس ساتھ لف ہے۔

2۔ ایک مجلس میں طلاق دینے کے یہ الفاظ تھے کہ ’’میں نے اسے طلاق دی‘‘ کیونکہ اس وقت میرا خون بہہ رہا تھا اس (بیوی) کے والد اور بھائی سے لڑائی کے نتیجے میں۔

3۔ پہلے طلاق اول کے نوٹس کے ڈیڑھ ماہ بعد صلح ہوگئی تھی، پھر اس کے ایک ماہ بعد یہ واقعہ ہوا۔

4۔ اس ڈیڑہ ماہ میں تین ماہواریاں نہیں آئی تھیں۔

طلاق نامہ اول:

منکہ****** لاہور کا ہوں، جو کہ بقائمی ہوش و حواس اقرار کرتا ہوں جو کہ من مقر کی شادی ہمراہ مسماۃ ****** لاہور سے مورخہ 09-05-2010 بشرع محمدی وقوع پذیر ہوئی تھی اور فریقین کے درمیان آپس کے تعلقات اس حد تک خراب ہوگئے تھے کہ من مقر کا آپس میں گزارہ کرنا ناممکن ہوگیا اور من مقر نے کافی حد تک نبھا کرنے کی کوشش کی لیکن مسماۃ کے بار ہا طلاق مانگنے کے مطالبے پر اور دونوں کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کیوجہ سے من مقر نے طلاق اول دینے کا فیصلہ کیا ہے لہذا من مقر مسماۃ ******* کو طلاق اول دے رہا ہوں۔ لہذا یہ دستاویز بقائمی ہوش و حواس خمسہ بلا جبر و اکراہ غیرے بلا شراکت غیرے رو برو گواہان تحریر کردی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے‘‘۔ العبد: حافظ ابو ذر مرزا

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ:

ایک طلاق رجعی، طلاق کے پہلے نوٹس سے ہوئی۔ اس کے بعد عدت کے اندر رجوع ہوگیا۔پھر دو ماہ بعد جب ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں تو باقی دو طلاقیں ان تین طلاقوں کے دینے سے ہوگئیں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved