• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مذکورہ بالا فتویٰ نمبر 8/ 231 سے متعلق سائل کی وضاحت

استفتاء

سائل کی طرف سے بیان

لڑکی کے سب گھر والے نکاح میں شامل تھے، میرے چند دوست بھی تھے، جبکہ میرے والدین اس نکاح پر رضا مند نہ تھے، اب ہم دونوں فریق صلح کرنے پر آمادہ ہیں، اور میرا تعلق فقہ حنفی مسلک سے ہے۔ جبکہ میں نے فون پر کال کے ذریعے اپنی بیوی کو مذکورہ بالا طریقہ سے تین طلاقیں دیدی ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تین طلاقیں ہو چکی ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے۔ اب رجوع یا صلح کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہی موقف جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین، ائمہ اربعہ اور جمہور امت کا رہا ہے اور ہے۔

چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

و البدعي ثلاث متفرقة. و في الشامية قوله: (ثلاث متفرقة) و كذا بكلمة واحدة بالأولى و عن الإمامية: لا يقع بلفظ الثلاث و لا في حالة الحيض لأنه بدعة محرمة و عن ابن عباس رضي الله عنه يقع واحدة، و به قال ابن إسحاق و طاؤس و عكرمة، لما في مسلم أن ابن عباس رضي الله عنه قال: الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم و أبي بكر رضي الله عنه سنتين من خلافة عمر رضي الله عنه طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر رضي الله عنه: إن الناس قد استعجلوا في أمر كان لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم. و ذهب جمهور الصحابة رضي الله عنهم و التابعين و من بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث. (4/ 423، طبع بيروت)

منسلکہ احادیث کا جواب دیکھنے کے لیے حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی کتاب ’’عمدۃ الاثاث فی الطلقات الثلاث‘‘ کا مطالعہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved