• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میں چھوڑتا ہوں سے طلاق کا حکم

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

شوہرکابیان

شوہراوربیوی میں کسی بات پر(دوسےتین باتیں تھیں )لڑائی ہوئی ،بیوی نےشوہرکوکہامجھےآپ کےساتھ نہیں رہنا،شوہرنےاس کےجواب میں یاویسےکہا’’میں چھوڑتاہوں‘‘ فوراساتھ کہا’’امی کی طرف‘‘  نیت میں طلاق قطعا نہ تھی ،بیوی نےپانچ منٹ پہلےکہاتھامجھےطلاق دولیکن بات بدل گئ تھی یہ واقعہ اس بات کاتسلسل نہیں ہے۔

بیوی کابیان

بیوی امی کےگھرجاناچاہ رہی تھی اورایک ،دودن یہاں  نہیں گزارناچاہ رہی تھی، بیوی بولی کہ مجھے چھوڑآؤ (امی کی طرف)شوہربولامیں چھوڑتا ہوں پھر بولا ساتھ ہی کہ چھوڑآتاہوں امی کی طرف ،بیوی بولی اب رہنےدیں، آپ کےجانےکےبعدہی جاوں گی امی کی طرف

(نوٹ)لڑائی کےوقت کی بات ہے۔

مذکورہ صورت کاکیاحکم ہے؟کیاطلاق واقع ہوئی کہ نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں خاوندنےجوالفاظ استعمال کیےہیں یعنی ’’میں چھوڑتا ہوں‘‘وہ اپنےسیاق وسباق کےلحاظ سے طلاق کے لیےنہ صریح ہےنہ کنایہ۔ اس لیےان الفاظ سےکوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور نکاح بدستورقائم ہے

شامی ج4ص519میں ہے:

فان سرحتك کنایةلكنه فى عرف الفرس غلب استعماله فى الصريح فاذاقال رهاكردم اى سرحتك يقع به الرجعي مع ان اصله كناية ايضا

فتاوی عثمانی ج2ص365 میں ہے:

لہذا اگر دوسرے قرائن لفظیہ کے ساتھ لفظ چھوڑ دیا غیر طلاق کے لئے مستعمل ہو تو یہ اس کے صریح ہونے کے منافی  نہیں کیونکہ الفاظ صریحہ بھی دوسرے قرائن لفظیہ کی موجودگی میں غیر طلاق کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور ان سے طلاق واقع نہیں ہوتی لہٰذا اس سےان علماء کے خلاف حجت قائم نہیں ہوتی جو لفظ چھوڑ دیا کو صریح قرار دیتے ہیں خلاصہ یہ کہ جو مثالیں آپ نے لکھی ہیں ان میں تو کسی کے نزدیک بھی طلاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ وہاں غیر طلاق کے معنی کے صریح قرائن موجود ہیں لیکن جب اس قسم کے قرائن موجود نہ ہو ں اور کوئی شخص بیوی کو کہے کہ میں نے تمہیں چھوڑ دیا تو راجح یہ ہے کہ اردو محاورے میں یہ صریح لفظ ہے۔

امدادالاحکام ج2ص470میں ہے:

واضح رہے کہ کنایہ وہ ہوتا ہے جس میں احتمال رفع قید نکاح بھی ہو اور اس کے غیر کا احتمال بھی ہو اور لفظ آزاد ہر حالت میں اور ہر استعمال میں کنایہ طلاق نہیں بلکہ یہ کنایات میں اس وقت داخل ہو گا جبکہ خلاف ارادہ طلاق کا قرینہ کلام میں نہ ہو مثلا یوں کہا جائے میری بیوی آزاد ہے یا تو آزاد ہے یا وہ آزاد ہے اور ہر طرح مجھ سے آزاد ہے تو پوری طرح آزاد ہے ان استعمالات میں بے شک یہ کنایات کے قبیل سے ہے اور اگر ارادہ طلاق کا قرینہ قائم ہو تو پھر یہ لفظ صریح ہوجاتا ہے مثلا یوں کہا جائے کہ میری بیوی میرے نکاح سے آزاد ہے یا میں نے اس کو اپنے نکاح سے آزاد کردیا اور اگر کلام میں عدم ارادہ طلاق کا قرینہ قائم ہوجائے تو پھر یہ نہ صریح طلاق سے ہے نہ کنایات  سے مثلا یوں کہا جائے کہ تو آزاد ہے جو چاہےکھاپی  میں نے اپنی بیوی کو آزاد کیا چاہے میرے پاس رہےیا اپنے گھر وہ آزاد ہے جب اس کا جی چاہے آوےان استعمالات میں ہرگز کوئی شخص محض مادہ آزاد کی وجہ سے اس کلام کو کنایہ طلاق سے نہیں کہہ سکتا بلکہ اباحت افعال و تخییر وغیرہ پر محمول کرے گا بشرطیکہ اس کو محاورات لسان پر کافی اطلاع ہو اور ایک لفظ کا صریح طلاق ہونا اور کنایہ طلاق ہونا اور گاہے دونوں سے خالی ہونا اہل علم پر مخفی نہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved