• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میرا ذکر (عضو تناسل) تجھ پر حرام ہے الفاظ کہنے سے طلاق حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ شوہر اور بیوی کا جھگڑا چل رہا  تھاتو شوہر نے کہا کہ میرا ذکر (عضوتناسل )تجھ پر حرام ہے اس کا کیا  حکم ہے نکاح ٹوٹ تو نہیں  گیا ؟

وضاحت مطلوب ہے ؟(1) کیا  مذکورہ الفاظ سے طلاق  کی نیت تھی یا نہیں (2)  اور پہلے سے مذاکرہ طلاق چل رہاتھا  یا نہیں؟

جواب وضاحت : (1) طلاق کی نیت نہیں تھی ،(2) اور مذاکرہ طلاق بھی نہیں تھا

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے اور نکاح کے بغیر بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں البتہ اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ  نیا نکاح  کرکے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ: نیا نکاح کرنے کے بعد شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

توجیہ: "میرا ذکر (عضو تناسل) تجھ پر حرام ہے” کے الفاظ "میں   تجھ پر  حرام ہوں ” مترادف ہیں  کیونکہ ذکر ایسا عضو ہے جس سے کل  بدن مراد لیا جاسکتا ہے اور "میں تجھ پر حرام ہوں” الفاظ کا حکم وہی ہے جو "تو مجھ پر حرام " الفاظ  کا ہے اور "تو مجھ پر حرام ہے” کے  الفاظ متاخرین  فقہاء کے نزدیک صریح ہیں جن سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے لہٰذا مذکورہ صورت میں  ایک طلاق بائنہ واقع ہوچکی ہے اور نکاح ختم ہوچکا ہے۔

المبسوط للسرخسی (72/ 6)میں ہے:

«وإذا قال لامرأته قد حرمتك علي أو قد حرمتك أو أنت علي حرام أو أنا عليك حرام أو ‌حرمت ‌نفسي عليك أو أنا عليك محرم أو أنت علي محرمة فالقول في ذلك كالقول في الحرام لأن

الحرمة تثبت من الجانبين فيصح إضافتها إلى نفسه كما يصح إضافتها إليها»

الدر المختار (4/172) میں ہے:

 (‌أنا ‌منك ‌طالق) أو بريء (ليس بشيء ولو نوى) به الطلاق (وتبين في البائن والحرام) أي أنا منك بائن أو أنا عليك حرام (إن نوى) لأن الإبانة لإزالة الوصلة والتحريم لإزالة الحل وهما مشتركان فتصح الإضافة إليه

الدر المختار (3/256) میں ہے:

(وإذا ‌أضاف ‌الطلاق ‌إليها) كأنت طالق (أو) إلى (ما يعبر به عنها كالرقبة والعنق والروح والبدن والجسد) الأطراف داخلة في الجسد دون البدن.

(والفرج والوجه والرأس) وكذا الاست، بخلاف البضع والدبر

 و في الشا مية تحت قوله ( الفرج) (قوله والفرج) عبر عن الكل في حديث «لعن الله الفروج على السروج» قال في الفتح إنه حديث غريب جدا

رد المحتار(4/ 519)میں ہے:

والحاصل أن ‌المتأخرين خالفوا المتقدمين في وقوع البائن بالحرام بلا نية حتى لا يصدق إذا قال لم أنو لأجل العرف الحادث في زمان ‌المتأخرين، فيتوقف الآن وقوع البائن به على وجود العرف كما في زمانهم.

در مختار (5/42) میں ہے:

”وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالاجماع“

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

”فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد“

امداد المفتین (ص:525 ) میں ہے:

لفظ حرام سے بلا نیت طلاق کے بھی طلاق بائنہ پڑجاتی ہے اور جب پڑ گئی تو دوسری اور تیسری مرتبہ  پھر حرام کے الفاظ کہے ان سے کوئی طلاق نہ پڑے گی لہذا ایک بائنہ طلاق رہ گئی بدون حلالہ کے عورت  کی رضا سے نکاح جدید بالفعل کرسکتا ہے۔ واللہ اعلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved