• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’ میری طرف سے آپ آزاد ہیں اپنے والدین کے گھر جانا چاہتی ہیں تو چلی جائیے وغیرہ‘‘سے طلاق کاحکم

استفتاء

1۔مفتی صاحب تقریبا چار پانچ سال پہلے  میرےشوہر سے جھگڑے رہتے تھے ایک لڑائی کے دوران انہوں نے غصہ میں کچھ ایسا کہہ دیا تھا کہ میری طرف سے آپ آزاد ہیں اپنے والدین کے گھر جانا چاہتی ہیں تو چلی جائیے ۔ یا کچھ ایسا کہہ دیا کہ آپ میری طرف سے آزاد ہیں میرے گھر سے چلی جائیں اپنے ماں باپ کے گھر ۔ بالکل لفظ با لفظ کہا یاد نہیں ہے  ۔ بس اتنے ہی الٖفاظ یاد ہیں ۔میرا سوال یہ ہے کہ  کیا اس طرح کہہ دینے  سے  طلاق واقع ہو جاتی ہے ؟

اب اس بات کو اتنے سال بھی گزر گئے ہیں ۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ کیا کفارہ دینا ہو گا ؟

2۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اکثر اوقات جب میرے شوہر کو میری خواہش ہوتی ہے تو وہ جماع نہیں کرتے صرف  ہاتھ سے میری  شرمگاہ سے کھیلتے ہیں ۔اور انگلی ہی میری شرمگاہ میں ڈالتے ہیں اور مجھے بھی ایسا کرنے کو کہتے ہیں ۔ میں بھی ہاتھوں سے ان کی شرمگاہ سے کھیلتی ہوں ۔یہاں تک کہ جوش سے پانی نکل جائے اور خواہش ختم ہو جائے ۔ کیا اس طرح کرنا جائز ہے ؟ اس طرح خواہش پوری کرنے سے گناہ گا ر تو نہیں ہوں گے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ الفاظ سے ایک بائنہ طلاق واقع ہو ئی  ہے جس کی وجہ سے پہلا نکاح ختم ہو گیا ہے ۔ دوبارہ اکھٹے رہنے کے لیے آپس میں نیا نکاح کرنا ضروری ہے جس میں گواہ بھی ہوں گے اور حق مہر بھی مقرر ہو گا ۔

یاد رہے کہ نکاح کرنے کے بعد یہ طلاق شمار میں رہے گی اور آئندہ کے لیے خاوند کے پاس دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا ۔

فقہ اسلامی ص 122 میں ہے

ایک جملہ ہے تجھے آزاد کیا اور دوسرا جملہ ہے تو آزاد ہے ۔ پہلا جملہ طلاق میں صریح ہے ۔ اور اس سے طلاق رجعی پڑتی ہے جبکہ دوسرا جملہ طلاق میں کنایہ ہے  ۔اس   سے طلاق بائن پڑتی ہے ۔

وفي الشاميه4/ 520

و نحو اعتدي واستبرئي  رحمك انت واحده انت حرة اختارى امرك بيدك سرحتك فارقتك لايحتمل السب والرد ….

2۔ جائز ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved