• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میری طرف سے دونوں فارغ ہو، تم گھر سے نکل جاؤ

استفتاء

1۔ میری بڑی بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا تھا جس پر میری بڑی بیوی نے کہا کہ آپ مجھے طلاق دے دو تو اس پر میں نے کہا  ‘‘ طلاق دے دی’’۔ اس جملے میں میں نے ایک طلاق کی نیت کی پھر دو منٹ کے بعد میں نے کہا ‘‘میں نے تجھے طلاق دی’’  یعنی پہلی کو ملا کر دو طلاقیں دیں اور یہ واقعہ  تقریباً دو سال کا عرصہ ہوگیا۔ عالم دین سے مسئلہ دریافت کیا جس کے مطابق رجوع کرلیا اب پوچھنا یہ ہے مذکورہ صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوگئیں اور کیا مذکورہ صورت درست ہے؟

2۔ میری ایک چھوٹی بیوی ہے چند دن قبل میرے اور چھوٹی بیوی کے درمیان جھگڑا یہ تھا کہ بڑی بیوی کی بہن بہت سخت بیمار تھی وہاں سے فون آیا دونوں میاں بیوی آجائیں۔ جس پر چھوٹی بیوی نے ہم کو جانے سے روکا اور بڑی بیوی سے اپنی بچی کو گود میں سے لے لیا اور لڑنا شروع کردیا جس پر میں نے اس کو طلاق دے دی اور چند منٹ بعد میں نے دوسری طلاق دے دی جس پر بڑی بیوی نے مجھے طلاق سے روکا۔ روکنے پر میں نے کہہ دیا کہ ‘‘میری طرف سے دونوں فارغ ہو ’’ اور میں نے دونوں سے کہا کہ  ‘‘تم گھر سے نکل جاؤ’’۔ مگر وہ گھر سے نہیں نکلیں۔ بڑی بیوی کو تو اس کا والد دوسرے دن لینے آگیا جس پر بخوشی بہن کی بیماری کی وجہ سے لے گیا۔ لہذا پوچھنا یہ ہے کہ بڑی بیوی کو طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟ چھوٹی بیوی کو کتنی طلاقیں واقع ہوئیں اور اس سے رجوع ہونے کی کیا صورت ہوگی؟

تنقیح: چند منٹ بعد کہا کہ ‘‘تم دونوں فارغ ہو’’ اور بقول خاوند کے اس کی نیت طلاق کی نہ تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بڑی بیوی کو تین طلاقیں ہوگئی ہیں اور اب اس سے نہ رجوع کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی صلح کی جاسکتی ہے اور نہ ہی حلالہ کے بغیر دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔

اور چھوٹی بیوی کو دو طلاقیں بائنہ واقع ہوگئی ہیں اور نکاح ختم ہوگیا ہے اکٹھے رہنا چاہیں تو دوبارہ نکاح کر کےاکٹھے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ: بڑی بیوی کو دو سال پہلے دو طلاق صریح مل چکی تھی جس کے بعد خاوند نے رجوع کیا تھا۔ دو سال بعد خاوند نے بڑی بیوی کو حالت غصہ میں  ‘‘تو فارغ ہے’’ کہا جو کہ طلاق کے لیے کنایہ ہے اور کنایہ کی تیسری قسم ہے جس میں قضاء نیت کا اعتبار نہیں کیا جاتا ہے اور بیوی کے حق میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ پس بڑی بیوی کو تیسری طلاق بھی ہوگئی۔

چھوٹی بیوی کو دو طلاق صریح دی اور اس کے بعد اسی مجلس میں  ‘‘تو فارغ ہے’’ کہا بغیر طلاق کی نیت کے کنائی بائن طلاق صریح کے بعد دی جائے اور نئی طلاق کی نیت نہ ہو تو اس سے نئی طلاق نہیں پڑتی البتہ پہلی طلاقیں بائن بن جاتی ہیں۔

و يقع بها أي بهذه الألفاظ و ما بمعناها من الصريح … واحدة رجعية و إن نوى خلافها من البائن أو أكثر … أو لم ينو شيئاً. ( شامى: 2/ 467- 466)

الحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا و الغضب و المذاكرة و الثاني في حالة الرضا و الغضب فقط و يقع في حالة المذاكرة بلا نية و الثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط و يقع في حالة الغضب و المذاكرة بلا نية. ( شامى: 2/ 55)

لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائناً و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. ( خلاصة الفتاوى: 2/ 86)

و إذا كان الطلاق بائناً دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة و بعد انقضائها. ( هداية)

في البزازية قال لامرأتيه أنتما علي حرام و نوي الثلاث في إحداهما و الواحدة في الأخرى صحت نيته عند الإمام و عليه الفتوى. ( شامی) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved