• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

” میری طرف سے تم فارغ ہو، جہاں جانا چاہتی ہو جاسکتی ہو”

استفتاء

میں پورے ہوش و حواس میں یہ حلفیہ بیان دیتی ہوں اور بقلم خود لکھ رہی ہوں کہ میرے شوہر نے آج سے ایک سال دس مہینے پہلے جھگڑے کے وقت یہ الفاظ کہے تھے کہ” میری طرف سے تم فارغ ہوجہاں جانا چاہتی ہو جا سکتی ہو”۔ اس بات کے بچے بھی گواہ ہیں۔ وہ پہلے بھی اکثر جھگڑے کے وقت ایسا کہہ دیتے ہیں ، کبھی کہتے ہیں کہ ” کاغذ لاؤ میں تمہاری طلاق لکھ دیتا ہوں”۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح کے الفاظ کہنا کہ ” میری طرف سے  تم فارغ ہو” کیا طلاق ہو جاتی ہے؟ اس  عرصے میں ہم بستری تو دور کی بات ہم ایک ساتھ ایک بیڈ پہ لیٹے بھی نہیں۔ کیونکہ ہماری آپس میں بول چال بھی نہیں ہے۔ درمیان میں صرف دو مہینے ہوئی تھی بول چال، لیکن تب بھی ہم اکٹھے لیٹے نہیں تھے۔ اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ کیا اس طرح طلاق ہوچکی ہے ؟ اور عدت کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کب سے شروع ہوگی۔

تنقیح: خاتون کو طلاق کے بعد سے اب تک تین سے زیادہ ماہواریاں آچکی ہیں۔

سائل کی مزید وضاحت: 2005 میں میرے خاوند عمرے پر گئے تھے اور جانے سے پہلے مجھے یہ کہہ کر گئے تھےکہ” اگر تمہارے گھر سے میرے بعد کوئی تمہائے پاس آیا تو تمہیں طلاق”۔ اور اس دوران میری والدہ میرے پاس آکررہی تھیں۔ عمرے سے واپس آکر میرے خاوند نے مجھے سے عدت کے دوران رجوع کر لیا تھا۔

بچوں کا بیان حلفی

ہم بچے پورے ہوش وہواس میں یہ حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ میرے والد نے جھگڑے کے وقت یہ الفاظ کہ ” میری طرف سے تم فارغ ہو” میری والدہ کو کہے تھے اور کہے بھی کئی بار ہیں۔ اب شرعی حکم بتائیں کہ کیا ہے؟ ۔

(*** عمر 17 سال ،*** 18سال، *** 21 سال )

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

خاوند نے یہ الفاظ ” میری طرف سےتم فارغ ہو، جہاں جانا چاہتی ہو جاسکتی ہو” اگر غصے کی حالت میں کہے ہوں تو عورت کے حق میں ایک طلاق بائن واقع ہو کر نکاح اسی وقت ختم ہوگیا۔

لما في الدر: هو رفع قيد النكاح في الحال بالبائن. ( 4/ 412 )

اور بعد میں خاوند نے جو کئی بار مرتبہ یہ الفاظ دہرائے تو اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

لما في الدر: لا يلحق البائن البائن إذا أمكن جعله إخباراً عن الأول كأنت بائن بائن أو أبنتك بتطليقة فلا يقع لأنه إخبار فله ضرورة في جعله إنشاءً. (4/ 531 )

خاتون کی عدت اس طلاق کے وقت سے شروع ہوگئی تھی اور اب تک گذرچکی ہے۔ البتہ جو 2005 میں طلاق دی تھی وہ بھی حساب میں شمار ہوگی۔ لہذا اب اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرنا ضروری ہے۔ اور آئندہ خاوند کو ایک طلاق کا حق باقی رہے گا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved