• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میسج کے ذریعےطلاق معلق کی ایک صورت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حضرت اس مسئلہ کی وضاحت مطلوب ہے۔ ہمارے یہاں دار الافتاء جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا میں زیر غور ہے:شوہر نے اپنی بیوی کو درج ذیل تحریری میسجز کئے۔ میسجز بمع ٹائم درج ذیل ہیں:

میں نے تجھے آخری چانس دیا ہے رات سے پہلے سرگودھا آجا(2:56)

رات ہونے میں بہت کم ٹائم ہے فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے(4:24)

آج رات کا ٹائم ہے تیرے پاس مجھے کوئی نہیں روک سکے گا(4:54)

تم اگر رات تک سرگودھا نہیں آئی میرے گھر تو تمہیں میری طرف سے طلاق ہے(6:02)

یہ میسج تم نے نہیں پڑھا کیا(6:02)

رات 12 بجے تک کا ٹائم ہے تمہارے پاس(6:02)

رات 12 کے بعد کوئی فیصلہ نہیں ہوگا (6:03)

6 ہوگئے ہیں 12 بجے سب ختم ہوجائے گا (6:06)

(بقول شوہر: میں نے ان آٹھ میسجز کے درمیان بہت سے اور میسجز بھی کیے ہیں)

میری بیوی نے جب یہ میسجز پڑھے تو اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ میں جارہی ہوں لیکن میری بیوی کے باپ نے اس کی ماں پر شرط رکھ دی کہ اگر یہ میری اجازت کے بنا گھر سے باہر گئی تو تمہیں میری طرف سے طلاق ہے اور پھر 11:20 پر اجازت ملی اور وہ فورا گھر سے نکلی اور 12:17 پر گھر پہنچ گئی۔ راستے میں تقریبا 10 منٹ ٹریفک بھی جام رہی۔

شوہر کا حلفیہ بیان:

میں ***** حلفاً بیان کرتا ہوں کہ رات تک سے مراد پوری رات تھی اور میرا مقصد طلاق دینا بالکل نہیں تھا۔ میرا شرط لگانے کا مقصد صرف ڈرانے کا تھا تاکہ میری بیوی گھر آجائے اور 12 بجے والی بات کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ گھر آجائے، میری نیت میں کوئی علیحدگی کا تصور نہیں تھا۔ میری نیت تھی کہ بس وہ گھر جلدی آجائے اور اس کے علاوہ کوئی اور مقصد یا بات ذہن اور نیت میں نہیں تھی۔

مفتی صاحب! ہندیہ اور تاتار خانیہ میں ایک جزئیہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی اسی جزئیہ کی بنیاد پر امداد الاحکام (496/2) میں ایک فتویٰ کچھ ایسی ہی صورت میں عدم وقوع کا موجود ہے۔ وہ جزئیہ یہ ہے:

إذا قال لامرأته في حالة الغضب: إن فعلت كذا إلى خمس سنين تصیری مطلقة مني وأراد بذلك تخويفها ففعلت ذلك الفعل قبل انقضاء المدة التي ذكرها فإنه يسأل الزوج هل كان حلف بطلاقها فإن اخبر أنه كان حلف يعمل بخبره ويحكم بوقوع الطلاق عليها وإن أخبر أنه لم يحلف به قبل قوله كذا في المحيط

کیا سوال میں مذکور صورت میں طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ایک تو اس وجہ سے کہ حضرت ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحبؒ کی تحقیق یہ تھی کہ موبائل پر میسج کی تحریر کتابتِ غیر مرسومہ میں داخل ہے اور کتابتِ غیر مرسومہ میں نیت کے بغیر طلاق نہیں ہوتی اور مذکورہ صورت میں شوہر کی طلاق کی نیت نہیں۔

اور دوسرے اس وجہ سے کہ مذکورہ صورت میں جو میسج طلاق میں مؤثر ہے وہ یہ ہے ’’اگر تم رات تک سرگودھا نہ آئی میرے گھر تو تمہیں میری طرف سے طلاق ہے‘‘ اس جملے میں ’’رات تک‘‘ کے الفاظ میں (غایت کو مغیا میں داخل مان کر) کل رات کے مراد ہونے کا احتمال ہے اور شوہر اپنے حلفیہ بیان میں پوری رات کے مراد ہونے کو بیان بھی کررہا ہے لہذا اس کا قول معتبر ہوگا اور عورت رات کو گھر پہنچ گئی تھی لہذا طلاق واقع نہیں ہوئی۔ باقی رہے بعد کے جملے جن میں12 بجے تک کی بات کی ہے ان میں طلاق کا ذکر نہیں ہے لہٰذا وہ تعلیق کو خاص 12 بجے تک محدود کرنے کے لیے مفید نہ ہوں گے۔

نوٹ: ہندیہ اور تاتارخانیہ میں مذکور جس جزئیے کی بنیاد پر امداد الاحکام میں عدمِ وقوع طلاق کا حکم مذکور ہے وہ جزئیہ اس صورت پر محمول ہے جس میں وقوع کا صیغہ مضارع کا ہو اور تعلیق فعل زوجہ پر ہو، اس صورت میں دار ومدار نیت پر ہوگا۔ تفصیل کے لئے دیکھیں امداد الاحکام جلد۲، ص۴۹۹ وصفحہ ۵۱۴۔ جبکہ ہماری صورت میں وقوع کا صیغہ فعل مضارع نہیں لہذا اس سے استدلال درست نہیں۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved