• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میسج كےذریعے طلاق دینے کا حکم

استفتاء

میرا نام **ہے میری شادی کو تقریبا چھ ماہ ہوگئے ہیں۔ ہم میاں بیوی میں دونوں کے گھریلو معاملات کی وجہ سے ناچاقی ہو گئی،ہماری واٹس ایپ کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے بحث ہوگئی جس میں میں نے کچھ ایسے میسجز بھی کر دیئے جس میں چھوڑنے کا لفظ تھا لیکن میرا طلاق وغیرہ کا بالکل ارادہ نہیں تھا اور نہ ایسی کوئی نیت تھی صرف بیوی کے بہت زیادہ اکسانے پر اسے چپ کروانے کے لیے میں نے یہ میسج کیے تھے اس پر میں قسم دینے پر بھی تیار ہوں کہ میری طلاق کی کوئی نیت نہیں تھی اور میں نے طلاق کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا۔ واٹس ایپ کی مذکورہ گفتگو درج ذیل ہے:

شوہر:مر گیا میں تمھارے لیے اور تم میرے لیےآج کے بعد مجھے میسج یا کال یا کوئی بھی رابطہ نہ کرنا۔

بیوی:چھوڑ رہے؟

شوہر:ہاں،ہمیشہ کے لئیے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی۔

توجیہ:ہماری تحقیق کے مطابق میسج کے ذریعے طلاق دیناتحریر کی غیر مرسوم صورت ہےجس سے طلاق کا واقع ہونا شوہر کی نیت پر موقوف ہوتا ہے،اور مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر کی طلاق دینے کی نیت نہیں تھی اس لیے مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی۔

ردالمحتار(4/442)میں ہے:’’قال في الهندية: الكتابة على نوعين: ‌مرسومة وغير ‌مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير ‌مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا لا‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved