• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میسج پر طلاق کاحکم’’ بائن چھوڑتاہوں‘‘کہنے سے طلاق کاحکم

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

سوال: میرے بیٹے اور میرے خاوند کے درمیان میسیج پر  مندرجہ ذیل بات ہوئی ہے۔ ان میسیجز کی بنیاد پر کیا مجھے طلاق ہو گئی ہے یا نہیں؟

لڑکے نے میسیج کیا:

میرا نہیں خیال کہ آپ اتنے نا سمجھ ہیں کہ آپ کو یہ نہ پتا ہو کہ میں آپ سے کس بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو  یہاں سے گئے ہوئے تین سال ہو گئے ہیں اورہمیں آپ کی کوئی اطلاع ہے نہ آپ سے کوئی رابطہ۔ یہ شاید آپ کے لئے مذاق ہو لیکن میں والدہ کی حیثیت جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کہاں کھڑی ہیں۔ یقیناً آپ نے اس کے بارے میں سوچا تو ہو گا بس میں آپ کا فیصلہ جاننا چاہتا ہوں۔ بظاہر آپ نے ایک خاندان کو بچانے کی خاطر دوسرے خاندان کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ نہ جانے آپ کون سے اسلام کے پیروکار ہیں۔

خاوند کا جواب:

آپ ٹھیک کہہ رہے ہو۔ میری طرف سے بہت معذرت۔ میں ہمیشہ اللہ تعالی سے اس کی اچھی صحت کے لیے دعا کرتا رہوں گا ۔ وہ بہت ہی بہترین عورت ہے اور بہت ہی اچھی بیوی ۔ میں بہت بد قسمت ہوں۔ میں موجودہ حالات کے پیش نظر  اس کے قابل نہیں ہوں۔آپ ٹھیک کہہ رہے ہو۔ قرآن کہتا ہے یا پوری عزت کے ساتھ اسے رکھو یا عزت کے ساتھ چھوڑ دو میں موجودہ حالات کے اندر اس کو رکھ نہیں سکتا اس لیے بائن چھوڑتا ہوں(I release her bian) جب میں واپس آؤں اوراگر  اس کی رضامندی ہو تو ہم دوبارہ شادی کرسکتے ہیں ان شاء اللہ۔ اس نے مجھے معاف کردیا ہے، میں  اپنے آپ کو معاف نہیں کر سکتا۔ وہ بہت نایاب ہے براہ مہربانی آپ اور منصور بھی مجھے معاف کر دیں۔

لڑکے نےمفتی صاحب سے بات کرنے کے بعد یہ لکھ کر میسیج کیا:

السلام علیکم۔ شکریہ۔ والدہ نے مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھا ہے۔  تو کیا برائے مہربانی آپ ایک وائس میسج ریکارڈ کرکے مجھے بھیج سکتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف سے آزاد ہیں؟  نیز کیا آپ اس بات کو کنفرم کر سکتے ہیں کہ یہ آپ نے پہلی دفعہ کہا ہے کیونکہ والدہ کی رائے ہے کہ آپ نے ان کو کسی اور کے سامنے بھی آزاد کیا ہے۔ کیا آپ اس کو کنفرم کر سکتے ہیں کہ کیا یہ بات ٹھیک ہے ؟ اور یہ کب ہوا تھا ؟ کیونکہ اس سے ان کی  عدت کی مدت میں فرق پڑتا ہے اور اگر آپ نے یہ پہلے بھی کہا ہے تو یہ عدت کے اعتبار سے ان کے لیے آسان ہوگا۔  آخری بات یہ ہے کہ ہم آپ کی چیزوں کا کیا کریں؟

خاوند کا جواب:

وعلیکم السلام لکھے ہوئے کا بھی وہی درجہ ہے جو وائس (آواز) کا ہے یہ پہلی بار تھا اس سے پہلے کبھی نہیں کہا میری چیزوں کو صدقے میں دیا جا سکتا ہے اللہ تعالی اسے بہترین صحت اور طاقت دے ایک دفعہ پھر میں بہت معذرت خواہ ہوں مجھے اس پر بہت پچھتاوا ہو رہا ہےاور جب تک میں زندہ رہوں گا میریہ ا زخم ہرا رہے گا۔

لڑکے نے اس کے جواب میں میسیج کیا:

لکھا ہوا کافی نہیں ہے۔  ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ اونچی صاف آوازمیں اپنی ولدیت سمیت شناخت کر کے نیز  والدہ  کی ان کی ولدیت سمیت شناخت   کر کے  طلاق بائن کے لفظ کے ساتھ بولیں۔

اس کا ان کی جانب سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔

خط کشیدہ عبارت یعنی

’’والدہ کی رائے ہے کہ آپ نے ان کو کسی اور کے سامنے بھی آزاد کیا ہے‘‘

اس جملے کے بارے میں وضاحت مطلوب ہے کہ یہ والدہ کا صرف خیال ہے یا اس کا کوئی ثبوت یا گواہ بھی والدہ کے پاس ہے؟ نیز الفاظ کیا تھے اور کس پس منظر میں تھے؟

جواب وضاحت:

اس شخص سے میرا  رابطہ پچھلے ساڑھے تین سال سے نہیں ہے۔ رابطہ توڑنے کی وجہ اس نے اپنی پہلی بیوی کی ناراضگی بتائی تھی اور یہ کہا تھا کہ اسکا یعنی پہلے بیوی کا تقاضہ ہے کہ یہ شخص مجھے طلاق دے دے تو وہ اس کے ساتھ رہے گی۔ لہذا اس شخص نے مجھ سے رابطہ منقطع کیا۔ اب جب میرے بیٹے نے رابطہ کیا تو اس نے اپنی مجبوری (کہ وہ مجھے رکھ نہیں سکتا) بتا کر ایک طلاق بائن دی۔  جب اس سے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ اس نے پہلی دفعہ دی ہے تو اس نے اقرار کیا  کہ یہ پہلی ہی دفعہ ہے اس سے پہلے اس نے کوئی طلاق وغیرہ نہ دیں اور نہ کسی کے سامنے کہا ۔لہذا یہ محض ایک شک کی بنیاد پر بات تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

’’بائن چھوڑتا ہوں‘‘ کے الفاظ سے ایک بائنہ طلاق ہو جاتی ہے جس سے سابقہ نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ البتہ یہ الفاظ اگر بذریعہ میسج لکھ کر بھیجے ہوں اور زبان سے کچھ نہ کہا ہو تو طلاق شوہر کی نیت پر موقوف ہوتی ہے کیونکہ ہماری تحقیق میں بذریعہ میسج طلاق دینا کتابت غیر مرسوم  کی صورت ہے جس میں طلاق نیت پر موقوف  ہوتی ہے۔ مذکورہ میسیج کے سیاق و سباق ( میسیج کےآگے پیچھے کی عبارت) سےبظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ میسج طلاق کی نیت سے کیا گیا ہے اس لئے مذکورہ میسیج سے ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے البتہ احتیاطاً شوہر سے پوچھ بھی لیا جائے کہ اس نے یہ میسج طلاق کی نیت سے کیا  ہے یا کچھ اور غرض ہے۔ اگر شوہر طلاق کی نیت کا حلفاً انکار کر دے تو پھر اس کا قول معتبر ہوگا اور طلاق واقع نہ ہو گی۔

نوٹ: ’’میسیج کے ذریعہ طلاق کتابت غیر مرسوم کی صورت ہے اور طلاق نیت پر موقوف ہوتی ہے‘‘ یہ ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور ہمارے دار الافتاء کی رائے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دیگر اہل افتاء حضرات کو اس سے اختلاف ہو لہذا سائلہ اگر دیگر اہل افتاء سے رجوع کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved