• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میاں بیوی کا الفاظِ طلاق میں اختلاف

استفتاء

بیوی کا بیان:

مارچ 2022ء کا یہ واقعہ ہے  کہ میرے شوہر میری والدہ سے فون پر بات کررہے تھے اسی دوران میرے شوہر نے میرے بارے میں دو بار ایک ہی وقت میں یہ جملہ بولا کہ ’’میں اسے آزاد کرتا ہوں‘‘ میری ماں اس وقت  کال پر تھیں، انہوں نے بھی یہ سنا تھا  اس وقت میں پانچ مہینے کے حمل سے تھی ۔ اس واقعہ کے فورا بعد میں ان کے گھر سے آگئی تھی اور بچی کی پیدائش تک واپس نہیں گئی تھی۔ میرے شوہر چرس کے عادی ہیں، سگریٹ بھی پیتے ہیں اس واقعہ سے کچھ دیر پہلے بھی وہ سگریٹ  پی کر آئے تھے  لیکن مجھے یہ نہیں معلوم کہ اس وقت بنا ہوا یعنی چرس  والا سگریٹ پیا تھا یا سادہ؟ کیونکہ اس وقت نشہ کے اثرات نہیں تھے۔ میرے آنے کے بعد میرے شوہر نے مجھ سے رابطہ کیا تھا کہ میں تمہیں لانا چاہتا ہوں، لیکن تمہیں والدین سے لا تعلق ہونا ہوگا، میں نہیں مانی، وہ کہتے تھے کہ تم میری بیوی ہو، میرا تم پر تمہارے والدین سے زیادہ حق ہے، لیکن میں والدین کو نہیں چھوڑ سکتی تھی اس لیے میں نہیں گئی۔ اس کے بعد میری بیٹی کی پیدائش 22 جون 2022ء کو  ہوئی۔ پھر تقریبا 15 جولائی 2022ء کو میرے شوہر نے مجھے میسج بھیجا کہ ’’میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں، کیا تم بچی دینا چاہتی ہو؟‘‘ یہ میسج دار الافتاء کے نمبر پر ارسال کردیا ہے۔ اب ہمارے نکاح کا کیا حکم ہے؟اور کتنی طلاقیں واقع ہوچکی ہیں؟

بیوی کے والد (**) کا نمبر: ******

بیوی کی والدہ کا بیان:

’’میرے داماد سے کال پر میری بات ہورہی تھی تو اس نے کہا کہ ’’یہ کہتی ہے کہ میں اس گھر میں قید ہوں، میں اسے آزاد کرتا ہوں‘‘ اسی دوران وہ بیٹی کو مار بھی رہا تھا۔ایک سے زیادہ دفعہ یہ جملہ بولا تھا، صحیح تعداد مجھے یاد نہیں۔ یہ میری بیٹی کو صحیح معلوم ہو گی کیونکہ وہ وہیں تھی۔‘‘

شوہر کا بیان:

’’می*** ہوں۔ میری بیوی بہت بد اخلاق ہے۔ ہمارا جھگڑا ہوا اور وہ یہ کہتی تھی کہ میں گھر میں قید ہوں اس کے یہ کہنے  پر میں نے اس کو کہا کہ ’’اگر تم قید محسوس کرتی ہو  تو میں تمہیں آزاد کردوں گا‘‘ پھر بچی کی پیدائش کے بعد میں نے جو طلاق کا میسج کیا اس کے ذریعے میں ایک طلاق ضرور دینا چاہتا تھا، اس کے علاوہ میں نے طلاق نہیں دی‘‘

شوہر کا رابطہ نمبر: ****

وضاحت مطلوب ہے کہ: شوہر نے جب پہلی دفعہ طلاق کے الفاظ بولے تو ان کے غصے کی کیفیت کیسی تھی؟ کیا کوئی خلافِ عادت کام مثلا توڑ پھوڑ وغیرہ بھی سرزد ہوا تھا؟

جوابِ وضاحت: وہ غصے میں تھا ، اسی دوران مجھے اس نے مارا بھی تھا، اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کیا۔ بات چیت بھی غصے میں کررہا تھا لیکن ٹھیک کررہا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے، لہٰذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہتے ہیں تو باہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ: دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں بیوی کے حق میں شوہر کے لیے صرف ایک طلاق کا حق باقی ہوگا۔

توجیہ: طلاق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے  جس کی وجہ سے اگر وہ شوہر سے طلاق کے الفاظ خود سن لے تو وہ اس کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ لہٰذا بیوی کے بیان کے مطابق جب شوہر نے بیوی کی والدہ سے فون پر بات کرتے ہوئے بیوی کے بارے  میں دو دفعہ یہ کہا کہ ’’میں اسے آزاد کرتا ہوں‘‘ تو چونکہ یہ جملہ طلاق کے لیے صریح ہے اس لیے اس سے دو رجعی طلاقیں واقع ہوئیں۔ اس کے بعد بیوی اپنے والدین کے گھر آگئی تھی جس کی وجہ سے فعلا رجوع تو نہیں ہوا، اور قولا بھی رجوع نہیں ہوا کیونکہ فون کال پر میاں بیوی کے مابین جو الفاظ استعمال ہوئے مثلا شوہر نے کہا کہ ’’ تم میری بیوی ہو، میرا تم پر تمہارے والدین سے زیادہ حق ہے‘‘ وغیرہ  یہ الفاظ رجوع کے لیے صریح نہیں بلکہ کنایہ ہیں جو نیت کے محتاج ہیں اور شوہر چونکہ طلاق دینے کا ہی انکاری ہے اس لیے اس نے رجوع کی نیت بھی نہیں کی اور طلاق کے وقت بیوی چونکہ حاملہ تھی اس لیے جب بچی پیدا ہوئی تو عدت پوری ہوگئی اور دونوں رجعی طلاقیں بائنہ بن گئیں اور نکاح ختم ہوگیا۔ اس کے بعد جب شوہر نے طلاق کی نیت سے میسج کیا تو بیوی کے بیان کے مطابق چونکہ اس وقت تک نکاح ختم ہوچکا تھا اس لیے اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی البتہ شوہر کے بیان کے مطابق چونکہ یہ پہلی طلاق ہے اس لیے میسج کے ان الفاظ سے کہ ’’میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں‘‘ شوہر کے حق میں ایک رجعی طلاق واقع ہوئی، کیونکہ ہماری تحقیق کے مطابق میسج کی تحریر کتابتِ مستبینہ غیر مرسومہ ہے جس سے طلاق کی نیت کے وقت طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

رد المحتار (449/4) میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه

رد المحتار (519/4) میں ہے:

فإذا قال "رهاكردم” أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الناس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت.

در مختار مع رد المحتار(4/509) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل

قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق

در مختار مع رد المحتار (5/25) میں ہے:

باب الرجعة: …… (هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ……. (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس

(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل. والأول قسمان: صريح كما مثل، ومنه النكاح والتزويج كما يأتي، وبدأ به لأنه لا خلاف فيه. وكناية مثل أنت عندي كما كنت وأنت امرأتي، فلا يصير مراجعا إلا بالنية أفاده في البحر والنهر.

[وقال في النهر في باب الرجعة]: والكناية أنت عندي كما كنت ‌وأنت ‌امرأتي فلا يصير مراجعًا إلا بالنية لأن حقيقته تصدق على إرادته باعتبار الميراث

بدائع الصنائع (3/ 283) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

در مختار مع رد المحتار (5/192) میں ہے:

(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)

فتاویٰ شامی (4/419) میں ہے:

قوله: (ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة……

تبیین الحقائق (6/218) میں ہے:

ثم الكتاب على ثلاث مراتب مستبين مرسوم …… ومستبين غير مرسوم كالكتابة على الجدران وأوراق الأشجار أو على الكاغد لا على وجه الرسم فإن هذا يكون لغوا لأنه لا عرف في إظهار الأمر بهذا الطريق فلا يكون حجة إلا بانضمام شيء آخر إليه كالنية والإشهاد عليه والإملاء على الغير حتى يكتبه لأن الكتابة قد تكون للتجربة وقد تكون للتحقيق . وبهذه الأشياء تتعين الجهة

ہدایہ (2/409، باب الرجعۃ) میں ہے:

‌‌فصل فيما تحل به المطلقة: "وإذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها” لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله

وفي فتح القدير تحت قوله (لأن زواله): مرجع الضمير الحل وضمير فينعدم للزوال.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved