• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میاں بیوی کا طلاق میں اختلاف

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا نام عدنان سرفراز ہے۔ میری اہلیہ مسماۃ زوبیہ نے ادارہ ہذا کو بابت متذکرہ مندرجہ بالا استفتاء پر رجوع کیا تھا۔ جس پر ادارہ نے میری اہلیہ کے بیان کردہ حقائق کے مطابق قرآن و سنت کی روشنی میں   جواب دیا۔ لیکن جب متذکرہ استفتاء کی ایک فوٹو کاپی مجھے مہیا کی گئی تو اس میں   کچھ حقائق مختلف بیان کئے گئے تھے۔ جن پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔

1۔            ہماری شادی کو عرصہ 20سال ہو گئے ہیں  ۔ جس میں   سے میرے نطفہ اور میری اہلیہ کے بطن سے 4بیٹے تولد ہوئے۔ (جن میں   سے ایک بیٹے کا انتقال ہو گیا تھا ۔ اور تین بیٹے اس وقت بھی میری کفالت میں   موجود ہیں  ۔ جن میں   سے سب سے بڑا بیٹا حسنین عدنان بعمر 19سال سپیشل چائلڈ ہے، تیمور عدنان بعمر 18سال اور معاذ بعمر 11سال ہے)۔

2۔            میں   نے اپنی اہلیہ کو دو طلاقیں   دی تھیں   ۔ جو کہ ایک دفعہ(ایک نشت) میں  نہیں   دی گئی تھیں  (متذکرہ استفتاء میں   یہ جھوٹ بیان کیا گیا کہ میں   نے ایک ہی مرتبہ میں   دو طلاقیں   دی تھیں  )۔ بلکہ ایک دفعہ ایک جھگڑا میں   جبکہ میری اہلیہ ناراض ہو کر اپنے والدین کے گھر میں   تھیں  ، میں   نے اپنی اہلیہ کو ایک طلاق تحریراً (مورخہ27-02-2007 (بذریعہ ڈاک بھیجی تھی (جس کے گواہ میرے خالہ کے بیٹے ماجد کریم ہیں   جو کہ میں   نے انہیں   بتایا تھا کہ میں   نے ایک طلاق تحریراًبھیجی ہے)تب میرے بیٹے معاذ عدنان کی پیدائش متوقع تھی۔ جس میں   (مورخہ 17-03-2007) کوہماری صلح بھی میرے خالہ کے بیٹے ماجد کریم کے گھر میں   ہوئی تھی۔ اور میری اہلیہ میرے ساتھ چونیاں   گھرآگئی تھیں  ۔ اس کے بعد میں   اور میری خالہ کے بیٹے   ماجد کریم اکٹھے متعلقہ یونین کونسل بھی گئے تھے تاکہ تحریراً بھیجی گئی طلاق کے متعلق صلح نامہ کا بتایا جا سکے(ماجد کریم کا بیان منسلک ہے)۔ اور پھردوبارہ طلاق زبانی (مورخہ 17-07-2009) دس سال بعد ایک سنگین جھگڑے میں   دی تھی (اس متذکرہ جھگڑا میں   ، میں   نے اپنی اہلیہ پر ہاتھ اٹھایا تھا اور کہا تھا ’’آج میں   تمہیں   دوسری طلاق دیتا ہوں  ‘‘)۔ اوراس جھگڑا کے فوراً بعد میری اہلیہ اپنے والدین کے گھر نہیں   گئی تھیں   بلکہ کچھ دن بعد مورخہ 03-08-2009کو ان کے والد (امانت علی نسیم) کی موجودگی میں   میری اہلیہ نے بذریعہ ایک اشٹام پیپر بچوں   کے متعلق ایک دستبرداری لکھ کر دی (کاپی منسلک ہے) ۔ جس پرمیری اہلیہ اور میرے سمیت میرے والد(مرحوم)اور میری اہلیہ کے والد امانت علی نسیم سمیت میرے اور میری اہلیہ کے ماموں   ناصر جاوید (مرحوم)اور میرے حقیقی بھائی سلما ن سرفراز نے دستخط کئے تھے۔ جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اتنے زیادہ لوگ زبر دستی دستخط نہیں   کرسکتے ۔ یہ سب باہمی رضامندی سے ہوا تھا جس میں   میری اہلیہ کی رضامندی بھی شامل تھی کیونکہ وہ جانا چاہتی تھیں   اور بچے نہیں   لیکر جانا چاہتی تھیں  ۔ اور اس کے بعد (مورخہ 03-08-2009) کومیری اہلیہ اپنے والد (امانت علی نسیم)کے ساتھ چلی گئی تھیں  ۔ ابھی عدت مکمل ہونے میں   2دن باقی تھے تو میری اہلیہ (مورخہ16-11-2009) کواپنی غلطی مانتے ہوئے تحریراً معافی نامہ لکھ کر دیتے ہوئے باہمی رضامندی سے گھر واپس آئیں  جو کہ وہ پہلے چونیاں   شہر میں   میری حقیقی پھپھو عفت طاہرہ کے گھر آئیں   (کاپی معافی نامہ منسلک ہے)۔ وہاں   پر قاری محمد عمر حیات صاحب (خطیب جامعہ مسجد ڈپٹی والی چونیاں  ) نے میرے والد (مرحوم ) محمد سرفراز احمد اور میرے حقیقی بھائی سلمان سرفراز کی موجودگی میں   ہمارا نکاح بالعوض حق مہر شرعی پڑھایا۔ جس کے بعد ہم اپنے گھر آگئے اور ہنسی خوشی حقوق زوجین ادا کرنے لگے۔

پورا خاندان اس بات کا گواہ ہے کہ میں   نے کبھی بھی بچے نہیں   چھینے تھے بلکہ ہر لڑائی میں   میری اہلیہ خود بچے میرے پاس چھوڑ جاتی تھیں   اور کہا جاتا تھا کہ یہ بچے آپ کے ہیں   آپ خود سنبھالیں   توآپ کو پتا چلے۔

3۔            میں   نے کبھی بھی اپنی اہلیہ سے دس سفید کاغذوں   پر سائن دستخط نہیں   کروائے۔

4۔            اس کے بعد ایک لڑائی جھگڑا میں   جولائی 2010کو میری اہلیہ ناراضگی میں   بغیر بچوں   کے اپنے والدین کے گھر چلی گئی اور تقریباً 4ماہ تک واپسی نہ ہوئی تو مایوس ہوکر میں   نے بحیثیت والد اپنے بچوں   کے مستقبل کے لئے کوئی محفوظ راستہ اپنانا تھا۔ کیونکہ میں   ہر وقت گھر میں   رہ کر بچوں   کی دیکھ بھال نہیں   کر سکتا تھا اس لئے میں   نے اسی ناراضگی کے دورانیہ میں   دوسری شادی کرلی۔ اس کے بعد میری پہلی اہلیہ (زوبیہ) نے اپنی والدہ کی وساطت سے دوباہ صلح کرنے کی کوششیں   جاری کیں  (جس میں   میری اہلیہ اور ان کی والدہ (میری خالہ) 2/3مرتبہ صلح کی بابت مذاکرات کے لئے چونیاں   میرے گھر بھی تشریف لائے) جس میں   ، میں   نے انہیں   واضح الفاظ میں   بتا دیا تھا اب میں   نے دوسری شادی کرلی ہے۔ تو مجھے کہا گیا کہ’’ ہمیں   منظور ہے۔ ہم صلح کرنا چاہتے ہیں  ۔ گھر بسانا چاہتے ہیں   ‘‘ ۔ اور صلح کرلی گئی۔

5۔            ہمارے درمیان لڑائی جھگڑے تو موجود تھے لیکن میں   نے 2/3دفعہ سے زیادہ اپنی اہلیہ پر ہاتھ نہیں   اٹھایا ۔ اور جب بھی ہاتھ اٹھایا تو یہ وارننگ دیکر ہاتھ اٹھایا کہــ’’اب اگر آپ کی زبان بند نہ ہوئی تو میرا ہاتھ اٹھ جائے گا‘‘۔ کیونکہ میری اہلیہ بہت زیادہ بد زبانی پر آجاتی ہیں  ۔ میں   نہ تو جاہل ان پڑھ ہوں   اور نہ ہی میری ایسے ماحول میں   پرورش ہوئی ہے کہ ہر وقت جھگڑا مار کٹائی اور گالی گلوچ کرتا رہوں  ۔ بلکہ میری اہلیہ کی طرف سے ایک تحریر موجود ہے جس میں   ان کی طرف سے بد زبانی اور نازبیا الفاظ کے استعمال کا اقرار موجود ہے (کاپی منسلک ہے)۔  اور میں   نے کبھی بھی اپنی اہلیہ کو جلانے کی کوشش نہیں   کی ہے(یہ سراسر مبنی بر جھوٹ بے بنیاد الزام ہے)۔ میری اہلیہ کی ریڑھ کی ہڈی میں   تیسری اور چوتھی ڈسک کے درمیان قدرتی ایک نوکدار Growthہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں   اکثر کمر درد رہتا ہے جس کا میں   نے بہت علاج معالجہ کرایا ہے۔ اور اسی وجہ سے گردن کے مہرے بھی کمزور ہوچکے ہیں  ۔ میری طرف سے ایسی کوئی زیادتی نہ ہے۔ (جس کا ثبوت میری اہلیہ کے ایکسرے اور مختلف رپورٹس کا ریکارڈ ہے)

6۔            میری عمرتقریباً  /45 44سال ہے ۔ اس عمر میں   انسان کو دنیاوی اور مذہبی خاصا علم ہو جاتا ہے۔ جہاں   تک ناپاکی کے متعلق بات کی گئی ہے تو جوانی میں   تو ایسی غلطی ممکن ہے لیکن فی الوقت تو ایسا کوئی امکان نہ ہے۔

7۔            بچوں   پر باپ کے مقابلہ ماں   کی تربیت کا زیادہ گہرا اثر ہوتا ہے۔ ماشاء اللہ میرے بیٹے لاکھوں   کروڑوں   میں   ایک ہیں  ۔ تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں   اور بہت تابعدار اور فرمانبردار اولاد ہیں  ۔ بڑا بیٹا تو سپیشل چائلڈ ہونے کی وجہ سے بستر پر ہے۔ اس سے چھوٹا بیٹا تیمور عدنان کا ابھی گزشتہ دنوں  9thکلاس کا رزلٹ آیا ہے۔ اور سب سے چھوٹا بیٹا   معاذ عدنان 5thکلاس میں   پڑھ رہا ہے۔ اللہ پاک ایسی اولاد ہر ماں   باپ کو دے جیسی میری فرمانبردار اور صالح اولاد ہے۔

8۔            مجھے چونیاں   سے لاہور شفٹ ہوئے عرصہ تقریباً ــــ5سال ہو گئے ہیں  ۔ اور میں   خود اپنے گھر کی بخوبی کفالت کررہا ہوں   ۔ یہ ہی نہیں   بلکہ عرصہ 2سال سے میں   اپنے دونوں   گھروں   کی الگ الگ کفالت بہ احسن طریقہ سے کررہا ہوں  ۔ مذکورہ 5سال میں   خصوصاً 3ماہ میری اہلیہ نے سلائی کرکے گھر چلایا ہے اور یہ بھی مختلف ٹائم میں   ایک ایک ماہ کا عرصہ ہے۔ میں   اپنی اہلیہ کو سلائی کرنے سے ہمیشہ منع کرتا ہوں  کیونکہ میں   اپنی اہلیہ سے یہ کہتا تھا کہ اگر آ پ نے گھرسلائی کرکے چلانا شروع کردیا تو میں   ہڈ حرام ہو جائوں   گااور آپ کی سلائی کی آمدنی پر انحصار کرنا شروع کردوں   گا۔ ان باتوں   کے گواہ میرے خاندان کے افراد ہیں  ۔ جن کے بیان بابت مذکور بصورت طلب پیش کئے جاسکتے ہے۔

9۔            الحمداللہ میں   نے آج تک کبھی سود پر کوئی پیسہ نہیں   لیا ہے۔ ہمیشہ رزق حلال کمایا ہے اور گھر میں   رزق حلال ہی آیا ہے۔ میں   نے ہمیشہ یہ دعا کی ہے کہ اللہ پاک مجھے سود جیسی لعنت سے پاک اور دور رکھے۔ اور الحمد اللہ میں   اس لعنت سے بہت دور ہوں  ۔ کیونکہ میں   نے پڑھا اور سنا ہواہے کہ سود کا مطلب اللہ پاک سے کھلی جنگ ہے۔ جو کہ ایک مسلمان نہیں   کرسکتا ہے۔

10۔         پچھلے دس سالوں   میں   ہمارے درمیان جو بھی جھگڑے ہوئے ہیں   ان کی بنیاد یہ ہے کہ میری اہلیہ کہتی ہیں   کہ ’’میرا آپ سے کوئی میاں   بیوی والا رشتہ نہ ہے ‘‘  اور میرا کہنا یہ ہے کہ ’’میں   آپ سے ہر طرح کا رشتہ رکھوں   گا۔ ہمارا میاں   بیوی والا رشتہ قائم رہے گا‘‘۔  اور اس بات پر ہماری متعدد بار بحث و لڑائی جھگڑا ہو چکا ہے۔ جب ہماری گزشتہ دس سالوں   کی لڑائیوں   کی بنیاد ہی یہ ہے کہ میری اہلیہ کا کہنا ہے کہ ’’میں   تم سے کسی بھی قسم کا میاں   بیوی والا رشتہ نہیں   رکھنا چاہتی اور میں   ذہنی طور پر علیحدگی کر چکی ہوں  ‘‘اور میرا کہنا یہ ہے کہ ’’ہم میاں   بیوی ہیں   اور میں   اپنی اہلیہ سے ہر قسم کا میاں   بیوی والا رشتہ قائم رکھنا چاہتا ہوں  ‘‘تو میں   کیسے یہ الفاظ استعمال کرسکتا ہوں   کہ ــ’’تم میری طرف سے فارغ ہو ۔ میرا تمہارا رشتہ ختم ہے۔ تم میری طرف سے آزاد ہو۔ نکل جائو میرے گھر سے ‘‘ ۔ یہ میرے خلاف سراسر غلط بیانی ہے۔

11۔         میں   نے اپنی اہلیہ کو شادی کے کچھ عرصہ بعد یہ الفاظ بولے تھے کہ ’’تم میری طرف سے فارغ ہو ۔ میرا تمہارا کوئی رشتہ نہ ہے‘‘۔ جس سے میرا مقصد قطعاًطلاق یا علیحدگی نہ تھا بلکہ یہ وقتی ناراضگی کا اظہار تھا۔ لیکن جب سے ہم نے تجدیدی نکاح کیا تھا۔ اس کے بعد میں   نے ایسے کوئی الفاظ نہیں   بولے۔

12۔         اپریل 2018 میں   جوشخص میرے گھر آیا تھا وہ میرا تنخواہ دار ملازم تھا۔ لیکن میں   نے اسے اپنا بھائی بنایا تھا۔ جس کی آمد پر میری اہلیہ نے کسی قسم کاکوئی اعتراض نہ کیا تھا۔ اس کے سامنے ہماری دو لڑائیاں   ہوئی تھیں  ۔ اس میں   دھکا ضرور دیا تھا لیکن مار کٹائی نہیں   کی تھی(میرے دونوں   بیٹے بھی اس واقعہ کے گواہ ہیں   کہ مار کٹائی نہیں   ہوئی تھی)۔ میں   نے اس موقع پراپنی اہلیہ کے سامنے ایسے الفاظ نہیں   بولے کہ ــ’’تم میری طرف سے فارغ ہو ۔ میرا تمہارا رشتہ ختم ہے۔ تم میری طرف سے آزاد ہو۔ نکل جائو میرے گھر سے‘‘۔۔۔  بلکہ میری اہلیہ نے یہ الفاظ استعمال کئے تھے کہ ’’میں   آپ کے ساتھ کوئی رشتہ نہ رکھنا چاہتی ہوں  ۔نہ دنیاوی اور نہ ہی میاں   بیوی والااور مجھے علیحدگی چاہئے۔‘‘ جس کے جواب میں  ،میں   نے یہ الفاظ بولے تھے کہ’’جیسا آپ کہہ رہی ہیں   کہ میرا آپ سے میاں   بیوی والا کوئی رشتہ نہ ہے تو آپ ایسا ہی سمجھ کر آرام سے اپنے بچوں   کے ساتھ زندگی گزاریں  ۔ اگر آپ مجھے نہیں   بلانا چاہتیں   تو کوئی بات نہیں   ۔ میں   آپ کو ڈسٹرب نہ کرونگا۔ اور گھر کی تمام ذمہ داریاں   خوش اسلوبی سے پوری کرونگا۔ اور اگر آپ یہ کہیں   کہ میں   گھر میں   بھی نہ رہوں  تو میں   اپنی رہائش کا مستقل انتظام اپنے دوسرے گھر میں   کر لیتا ہوں  ۔ لیکن آپ بچوں   کے ساتھ رہیں  ۔ ‘‘۔۔۔

مورخہ21جولائی2018کومیری اہلیہ میری غیر موجودگی میں   تینوں   بچوں   کو گھر میں   تنہا چھوڑ کر اپنی آزاد مرضی سے اپنی والدہ کے گھر چلی گئی ہیں  ۔ اس دوران میں   نے متعدد بار کوشش کی ہے کہ وہ واپس آکر اپنا گھر آباد کریں   لیکن وہ کسی بھی طرح مان کر نہ دے رہی ہیں  ۔

مزید براں   یکم جولائی 2018سے لیکر 21جولائی2018کے دوران میری اہلیہ نے 3مرتبہ مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا ہے۔ جوکہ ایک مرتبہ مجھے میری اہلیہ نے پیغام کے ذریعہ کہلوایا تھا کہ ’’خود سے مجھے طلاق دے دیں  ‘‘(میری اہلیہ کا مطالبہ یہ بھی تھا کہ طلا ق دیتے ہوئے ان پر الزام نہ آئے کہ انہوں   نے طلاق کا مطالبہ کیا ہے بلکہ میں   اپنے اوپر یہ الزام لوں   کہ طلاق میں   دے رہا ہوں  ) اور اس کے بعد 2مرتبہ آمنے سامنے میری اہلیہ نے مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا تھا۔ جو کہ میں   نے تینوں   مرتبہ طلاق دینے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ بچوں   کو آپکی ضرورت ہے اور آپ کو بچوں   کی ضرورت ہے اور مجھے آپ سب کی ضرورت ہے۔ آخری مرتبہ(تیسری مرتبہ) میری اہلیہ نے جب گھر چھوڑا تو اس سے ایک دن پہلے رات کو طلاق کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن میں   اپنی اہلیہ کو طلاق نہ دینا چاہتا ہوں  ۔

اب میری اہلیہ نے مجھے متذکرہ استفتاء دیا ہے کہ اس کی بناء پر ہمارا کوئی رشتہ نہ ہے اور نہ ہی میری کوئی عدت ہے۔ اور تجدیدی نکاح کالعدم ہے اور میں   جس سے چاہوں   نکاح کر سکتی ہوں  ۔

میری آپ سے درخواست ہے کہ آ پ اس پر متذکرہ استفتاء پر میرے بیان کردہ حقائق و پیش کردہ ثبوت کی روشنی میں   متذکرہ مندرجہ بالا استفتاء پر نظر ثانی کریں   ۔

i۔ ہمارا تجدید ی نکاح قاری محمد عمر حیات صاحب (خطیب جامعہ مسجد ڈپٹی والی چونیاں  )نے دو گواہان (میرے والد اور میرے بھائی)کی موجودگی میں   بالعوض شرعی حق مہر پڑھایا تھا۔ (قاری محمد عمر حیات صاحب کا تصدیقی بیان منسلک ہے)۔

ii۔            ہمارا تجدیدی نکاح دو گواہان (میرے والد اور میرے بھائی) کی موجودگی پڑھایا گیا تھا۔ جو کہ میری پھپھو کے گھر چونیاں   میں   پڑھایا گیا تھا۔ (میری پھپھو کا تصدیقی بیان منسلک ہے)۔

iii۔           ہمارے تجدیدی نکاح کے بعد میں   نے یہ الفاظ کبھی استعمال نہیں   کئے کہ ــ’’تم میری طرف سے فارغ ہو۔ میرا تمہارا کوئی تعلق نہ ہے‘‘۔ اور جب پہلے بھی اس قسم کے الفاظ استعمال کئے تھے تو اس میں   میرا کہنے کا مقصد طلاق دیناقطعی نہ تھا بلکہ ناراضی کا اظہار ہوتا تھا۔

’’کیا ہمارا تجدیدی نکاح بمطابق شرع قائم ہے اور کیا میری اہلیہ اب بھی میری زوجیت میں   ہیں  ۔ ؟؟؟‘‘

برائے مہربانی نظر ثانی کرتے ہوئے رہنمائی فرمائیں  ۔

وضاحت مطلوب ہے کہ :

۱۔ آپ نے اپنی اہلیہ کو شادی کے کچھ عرصہ بعد یہ الفاظ بولے تھے کہ ’’تم میری طرف سے فارغ ہو ،میرا تمہارا کوئی رشتہ نہ ہے ‘‘یہ الفاظ کس پس منظر میں   کہے تھے ؟اسے تفصیلا لکھیں

۲۔ آپ نے اپنی اہلیہ کو ایک طلاق تحریراً 27-2-7کو بذریعہ ڈاک بھیجی تھی اس کی فوٹو کاپی ساتھ لف کریں  ؟

جواب وضاحت :

۱۔ وضاحت بابت کہ یہ الفاظ آپ نے کس پس منظر میں   ادا کئے تھے کہ ’’میری طرف سے فارغ ہو ۔ میرا تمہارا کوئی رشتہ نہ ہے‘‘۔ہماری شادی کے بعد لڑائی جھگڑے رہتے تھے۔ جو کہ قطعاً ذاتی بنیاد پر نہ تھے۔ بلکہ ان لڑائی جھگڑوں   کی بنیاد قطعی ننھیالی خاندانی معاملات تھے۔ جن پر ہماری اکثر و بیشتر بحث ہوتی تھی۔ جو کہ طول پکڑ جاتی تھی۔ اس نوعیت کے ایک جھگڑے میں   جب ہماری لڑائی کافی بڑھ گئی تو میں   نے غصہ میں   مندرجہ بالا الفاظ استعمال کئے تھے کہ  ’’تم میری طرف سے فارغ ہو ۔ میرا تمہارا کوئی رشتہ نہ ہے‘‘۔لیکن ان الفاط کے استعمال میں   میرا مقصد قطعاًطلاق دینا یا علیحدگی نہ تھا بلکہ یہ وقتی ناراضگی کا اظہار تھا۔ لیکن جب سے ہم نے تجدیدی نکاح کیا تھا۔ اس کے بعد میں   نے ایسے کوئی الفاظ نہیں   بولے۔

۲۔ وضاحت بابت پہلی تحریراً طلاق کہ اس میں   کیا الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔

مورخہ 27-02-2007کو میں   نے اپنی اہلیہ ایک (پہلی) طلاق تحریراً بذریعہ ڈاک بھیجی تھی۔ جس میں   یہ الفا ظ استعمال کئے گئے تھے کہ آپ ناراض ہوکر اپنے والدین کے گھر منتقل ہوگئی ہیں   ۔ اور آپ کی بد زبانی اور نا فرمانی کی وجہ میں   آپ کو ایک طلاق دیتا ہوں  ۔ اور یہ بھی لکھا تھا کہ اگر آپ اس ایک طلاق سے سبق حاصل کریں   تو جلد از جلد گھر واپس آکر اپنا گھر بسائیں   بصورت دیگر میں   آپکو مخصوص دورانیہ کے بعد دوسری طلاق ارسال کروں   گا۔ لیکن اس سے پیشتر ہی مورخہ 17-03-2007کو ہماری صلح ہماری خالہ کے بیٹے ماجد کریم کے گھر میں   ہوئی۔ جس کے بعد میں   اپنی اہلیہ کو واپس گھر چونیاں   لے آیا۔ اور ہم نے بخوشی ملکر گھر آباد کیا۔  دراصل یہ واقعہ تقریباً 11سال پرانا ہے۔ اس لئے فی الوقت میرے پاس اس کی فوٹو کاپی موجو نہ ہے۔ لیکن میں   نے جو بھی مندرجات بیان کئے ہیں   وہ حلفاً ہیں  ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں   شوہر کے بیان کے مطابق ان کی بیوی کے حق میں   ایک بائنہ طلاق واقع ہوئی ہے اور خود شوہر کے حق میں   دورجعی طلاقیں   ہوئی ہیں   بہر صورت شوہر کے بیان کے مطابق مذکورہ صورت میں   چونکہ دو گواہوں   کی موجودگی میں   نکاح دوبارہ پڑھایا جاچکا ہے اس لیے یہ نکاح شرعا ًمعتبر ہے اور سائل کی اہلیہ سائل کی زوجیت میں   ہیں  ۔البتہ سائل کی بیوی ابھی بھی اگر اس بات پر قائم ہیں   کہ ان کا یہ نکاح بغیر گواہوں   کے ہوا تھا تووہ اس بارے میں   اپناتحریری حلفیہ بیان دیں  ۔

توجیہ:         بیوی کے حق میں   ایک بائنہ طلاق شوہر کے ان الفاظ سے ہوئی ’’تم میری طرف سے فارغ ہو میرا تمہارا کوئی رشتہ نہ ہے ‘‘ان الفاظ سے اگر چہ شوہر کی نیت طلاق دینے کی نہ تھی اس لیے شوہر کے حق میں   ان الفاظ سے طلاق واقع نہ ہو گی لیکن چونکہ یہ الفاظ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں   سے ہیں   جو کہ اگر غصے کی حالت میں   کہے جائیں   تو المرأۃ کالقاضی کے اصول کے پیش نظر ان الفاظ سے بیوی کے حق میں   ایک بائنہ طلاق ہوجاتی ہے ۔شوہر کے حق میں   دو رجعی طلاقیں   دو مختلف مواقع پر صریح الفاظ میں   دی گئی طلاقوں   سے ہوئی ہیں   جن میں   ہر ایک کے بعد عدت گذرنے سے پہلے ہی رجوع ہو گیا تھا بلکہ دوسری کے بعد تو نکاح بھی دوبارہ پڑھا لیا گیا ۔

نوٹ:         شوہر کے اپنے بیان کے مطابق آئندہ کے لیے صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے اس لیے آئندہ اگر ایک طلاق بھی دیدی تو بیوی شوہر پر مکمل حرام ہو جائیگی اور صلح یا رجوع کی گنجائش ختم ہو جائیگی

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved