• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میاں بیوی کےخاندانوں کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کے لیے صلح صفائی

استفتاء

ایک شوہر اور اس کی بیوی کےدرمیان  حالات بہت کشیدہ ہوچکے ہیں ، جن کو آپ کےسامنے پیش کرکے یہ معلوم کرنا ہے کہ ان حالات میں شریعت کا حکم دیتی ہے؟

ایک بھائی  ( مثلا***) اپنی بہن کی شادی  فقط دین کی بنیاد پر ایک ایسے شخص ( آئندہ سطور میں اس شخص کو لڑکا کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے ) سے کرتا ہے جو پہلے سے بیوی بچوں والا ہے۔ اس شادی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اس بھائی (مثلا***) کو طرح طرح کی تکالیف اور بہت زیادہ مخالفتوں کا سامنا کرنا پرا، نیز اپنے خاندان کو راضی کرنے اور مسائل کو حل کرنے میں ساڑھے تین سال کا عرصہ لگ گیا، لیکن اس عرصہ میں فقط لڑکی والوں ہی کے حالات والدین کی رضامندی کی وجہ سے قدرے بہتر ہوئے۔ یہ تمام باہمی سوچ بچار، استخارہ اور استشارہ ( جس  میں لڑکی کی بہنیں، دو بہنوئی، دو بھائی ، والدین اور دولہا شامل تھے ) سے قرار پائے۔

لڑکی  والوں نے لڑکے کی اس حدتک رعایت کی کہ شادی سے متعلقہ تمام معاملات مخالفین کی پرواہ کیے بغیر لڑکے کی مجبوریوں کا لحاظ کر کے لڑکے کے کہنے کے مطابق طے کیے۔ لیکن لڑکا اپنے خاندانی حالات کے پیش نظر اس شادی کو فی الحال اپنے خاندان کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا، اس  لیے لڑکے کے خاندانی مسائل کا وقتی حل یہ نکالا گیا کہ فی الحال صرف نکاح کر لیا جائے۔ اور اس کے بعد لڑکا اپنے خاندان کے حالات صحیح کرےگا۔ جب درست ہوجائیں گے اس وقت رخصتی ہوجائے گی، لیکن اس نکاح کے دو ماہ بعد ہی لڑکے نے اصرار شروع کر دیا کہ رخصتی کر دی جائے۔ لڑکی کے گھر والوںمیں سے اس کی مخالفت کی گئی کہ شادی کے حوالے سے پہلے اپنے خاندان کے حالات درست کر لیں۔ اس کے بعد رخصتی کریں گے۔ لیکن لڑکے نے پہلے بھی  کہا تھا، اب بھی میں یہی کہہ رہا ہوں، لہذا اس کے کہنے پر والدین نے رخصتی کردی۔ اس معاملہ کے بارہ میں مزید علماء کرام سے مشاورت کی اس لیے  ضرورت محسوس نہیں کی  گئی کہ یہ لڑکا خود صاحب علم و تقویٰ تھا، جس کی لڑکی والوں نے پہلے تو شدید مخالفت کی لیکن بعد میں لڑکے کے کہنے  کی وجہ سے راضی ہوگئے۔ اور شادی ہوگئی۔

رشتہ چونکہ لڑکی والوں نے پہلے پیش کیا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ  لڑکا حافظ، عالم، مفتی، دیندار، نیک ، شریف النفس، اور باعمل ہے( لڑکا بھی مکمل طور پر بخوشی راضی تھا، لڑکے پر کوئی جبر نہیں کیا گیا) اس پر اگر چہ لڑکی کے خاندان والے بہت نالاں تھے، لیکن بسیار کوشش کے بعد والدین کی رضامندی کی وجہ سے معاملہ حل ہوگیا، لیکن اس کے باوجود لڑکی کے خاندان میں مخالفین کی بددماغی کسی نہ کسی درجہ میں قائم رہی، شادی سے پہلے لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے سے اس بات کا عہد لیا گیا کہ شادی کے بعد حالات خواہ کیسے ہی ہوں آپ طلاق نہیں دو گے۔، کیونکہ آپ کے خاندان والے نہ تو راضی ہیں ااور نہ ہی انہیں شادی کی خبر ہے، مطلع ہونے کی صورت میں وہ طلاق کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ کو مستقبل میں طلاق پر مجبور ہوجانے کا اندیشہ ہو تو ہم شادی سے پہلے ہی باز آتے ہیں، کہ اتنی تکلیفوں اور مخالفتوں کےبعد اگر دین نہ ملے اور نتیجہ طلاق  ہو تو شادی نہ کرنا ہی  بہتر ہے۔ لڑکے نے اس بات کی مکمل تسلی دلائی کہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ طلاق ہو، میں ہرگز طلاق نہیں دوں گا۔ بالآخر لڑکے کی طرف سے مکمل اطمینان اور تسلی کے بعد شادی ہوئی۔ لڑکے کا خاندان اگرچہ انتہائی اعلی، حفاظ، علماء اور مفتیان کا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ خاندانی روایات ، پابندیاں اور مجبوریاں بھی ہیں جن کے خلاف کرنے کی کوئی گنجائش یا اجازت ہرگز نہیں ہے۔بلکہ پوری برادری میں جوائنٹ سسٹم ہے جس کی مخالفت کرنا یا قوانین توڑنا از حد مشکل ہے، اسی طرح یہ لڑکا خاندان کے علاوہ اپنے علاقے میں بھی ایک مقتدا کی حیثیت رکھتا ہے۔ لوگوں کو ان کے دینی مسائل اور فتاویٰ کےسلسلہ میں رہنمائی کرتا ہے، نیز اس پر عمومی و خصوصی دعوت و تبلیغ کی بھی کافی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔لڑکے کی پہلی بیوی تیز مزاج ہے، وہ دوسری شادی کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتی۔

اب جبکہ لڑکے نے اپنے خاندان میں دوسری شادی کا اظہار کر دیا ہے یہ اظہار فی الحال تین افراد کے سامنے کیا ہے ۔ ۱۔ لڑکے کے بڑے بھائی جو خاندان کے بڑے تصور کیے جاتے ہیں ، خاندانی معاملات میں وہ جو فیصلہ کردیں اس کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ ۲۔ اس لڑکے کی پہلی بیوی۔ ۳۔اس  کا بڑا بیٹا۔

اس  اظہار کے بعد اب پہلی بیوی کا مسلسل یہی مطالبہ ہے کہ دوسری بیوی کو فورٍاً چھوڑ دو ، ورنہ میں اپنے آپ کو کچھ کر لوں گی۔ بڑے بیٹے کا بھی یہ  مطالبہ ہے کہ ان حالات میں چلنا مشکل ہے۔ اور لڑکے کے بڑے بھائی کا یہ کہنا ہے کہ اس نکاح کو قائم رکھنے میں دین کی بہت بدنامی ہوگی، ہمارا خاندانی وقار  مجروح ہوگا، کیونکہ معاشرہ میں ہمارے خاندان بالخصوص لڑکے کا ایک مقام ہے جن کا علاقہ کے رہنماؤں میں شمار ہوتا ہے، پاکستان بھر میں ان کی دینی سرگرمیاں ہیں لڑکے کے اس نکاح سے معاشرہ کو کیا تأثر ملے گا؟ اس پر سے معاشرہ و خاندان کے افراد کا اعتماد جاتا رہے گا، پوری برادری میں کہرام برپا ہوجائے گا۔

لڑکے کے بڑے بھائی نے لڑکے سے یہ بھی کہا کہ اس سے پہلے کہ برادری کو تمہاری  دوسری شادی کا علم  ہو اور وہ بھی جو اخفاء کے ساتھ کی ہوئی ہے۔ ( اگرچہ یہ اخفاء اب درجہ شہرت کو پہنچ چکا ہے ، علاقہ وغیر علاقہ کے بہت سے لوگوں کو اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ اس لڑکے نے دوسری شادی کر لی ہے ، اگرچہ وہ اس لڑکے کے سامنے اس کا اظہار نہیں کرتے، البتہ جن کو علم ہے وہ اپنی نجی مجالس میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں ) تم دوسری بیوی کو طلاق دیدو، اسی میں دین و خاندان کی عزت ہے، تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے جس کا ازالہ سوائے طلاق کے کچھ نہیں ہے۔ ( جبکہ لڑکے کے بھائی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے خاندان کو س شادی کا علم بھی نہ ہو، اور طلاق بھی ہوجائے۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟)

لڑکے کے بڑے بھائی لڑکی والوں سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چونکہ آپ نے دین کی بنیاد پر شادی کی ہے۔ لہذا ہمیں امید ہے کہ آپ دین ہی کی خاطر اس رشتہ سے دست بردار ہوجائیں گے۔ کیونکہ اس شادی کو قائم رکھنے میں ہمارے خاندان اور دین کی بدنامی ہے۔ اس بات کا ہم کو بھی علم کہ طلاق شریعت میں ناجائز ہے، لیکن ہم خاندان  ور علاقے کے حالات کی وجہ سے مجبور ہیں۔

جبکہ لڑکی والوں کا کہنا ہے کہ جب لڑکے کا بڑا بھائی جو فیصلہ کردیتا ہے وہ ہی ماننا پڑتا ہے تو پھر وہ خاندان اور علاقے کی پرواہ کیے بغیر شریعت کے مطابق فیصلہ کیوں نہیں کر دیتے۔ نیز طلاق نہ دینے میں خاندان کے اصول و قواعد ضرور ٹوٹیں گے، تکالیف کا سامنا کرنا پڑےگا لیکن طلاق دینے میں دین  اور علماء کی بے عزتی و  بدنامی ہوگی کیونکہ شریعت میں طلاق مذموم ہے، آپ اپنی برادری کی رائے لیں، انہیں خدا کا خوف دلائیں، مفتیان کرام سے فتویٰ لیں جب تمام حربے ناکام ہو جائیں تب ہم سے مطالبہ کریں۔

موجودہ حالات میں لڑکے کی صورت حال یہ ہے کہ وہ اپنے خاندانی دباؤ اور متوقع ناساز علاقائی حالات کی وجہ سے انتہائی مجبور ہو تا  ہوا محسوس ہوتا ہے ان حالات میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ خاندان والے اس سے اپنے مدعا کے مطابق عمل کروالیں۔

خدانخواستہ اگر طلاق ہوجاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں لڑکی والوں کی طرف سے جو حالات متوقع ہیں وہ یہ ہیں:

۱۔ لڑکی والوں کا کہنا ہے کہ ہم اپنے  خاندان کو کیا منہ دکھائیں گے، لوگ طعنہ دیں گے کہ بہترین رشتوں کو چھوڑ کر تم نے شادی شدہ سے دین کے نام پر رشتہ کر کے بھی طلاق ہی لی۔

۲۔ لڑکی کے بھائی، لڑکے اس کے خاندان ، دین اورعلماء کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے۔ اور جسمانی ایذا الگ پہنچائیں گے۔

۳۔ لڑکی کے بہت سے خاندان جو دین سے دور تھے وہ اس شادی کی وجہ سے دین سے قریب ہوئے ہیں۔ وہ دین اور علماء سے بد ظن ہو جائیں گے۔

۴۔ لڑکی کے خاندان میں جس نے بھی اس لڑکے کی طرف سےطلاق کا عندیہ ظاہر کیا گیا تو ہر ایک نے یہی کہا کہ مولانا بہت دیندار ہیں وہ ایسا اقدام نہیں کریں گے، اگر خدا نخواستہ اقدام ہوگیا تو ان کےدلوں سےعلماء کی عزت جاتی رہے گی۔

۵۔ لڑکے کے بوڑھے والدین کو ناقابل بیان صدمہ پہنچے گا۔

آپ حضرت چونکہ بڑے ہیں اس لیے آپ سے اس بارہ میں مشورہ اور فتویٰ مطلوب ہے  کہ لڑکے والوں کا کہنا ہے کہ اس نکاح کے باقی رہنے میں دین کی بدنامی ہوگی جبکہ لڑکی والے کہتے ہیں کہ طلاق دینے میں دین کی بدنامی ہوگی؟ اب ان حالات میں آپ  اس بات کا فیصلہ فرمادیں کہ دین کی عزت اور بدنامی کس میں ہے؟ ان حالات میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

یہ کوئی ایسا دینی مسئلہ نہیں جو لڑکے والے اور لڑکی والے  نہ جانتے ہوں، لڑکی کے بھائی زید  نے بھی بے وقوفی کی اور لڑکے نے بھی حماقت کا مظاہرہ کیا اور دونوں نے دین  کے نام پر اپنی حماقتوں کا اظہار کیا ہے۔ ایسی بے عقلی سے اللہ بچائے۔

مشورہ کے طور پر ہم یہ کہتے ہیں کہ لڑکے والوں اور لڑکی والوں میں سے کچھ ذمہ دار لوگ آپس میں مل بیٹھ کر خدا خوفی کے ساتھ اور اپنی خاندانی یا معاشرتی  عصبیتوں کو نظر انداز کر کے حل سوچیں اور متفقہ طور پر فیصلہ کریں کہ گھر بسایا جاسکتا ہے یا نہیں؟

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved