• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

موبائل میسج کے ذریعے سے طلاق

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ خاوند اور بیوی کی موبائل فون پر بذریعہ ایس ایم ایس بات ہو رہی تھی، کہ اچانک بات کرتے کرتے خاوند شدید غصے کی حالت میں آ گیا اور اس نے مندرجہ ذیل یہ الفاظ ایس ایم ایس کیے۔

"تم نے مجھے کبھی اپنا خاوند نہیں سمجھا، ایک کھلونا سمجھا ہے، جاؤ آزاد ہو تم میری طرف سے، اب نہیں ہے گذارہ، اب ہم نہیں رہ سکتے، آزاد ہو تم، آزاد ہو تم، میں نے پکا پکا سوچ لیا ہے کہ میں تمہیں چھوڑتا ہوں، میں نے تمہیں آزاد کیا، طلاق، 7 دن تک طلاق کے پیپرز آجائیں گے۔”

یہ ایس ایم ایس 25 جولائی 2015ء کو بھیجے تھے اور بیوی حالت حیض میں تھی، اور خاوند بیرون ملک میں تھا جب اس نے یہ

ایس ایم ایس بھیجے، اور یہ تحریری طلاق 29 ستمبر 2015ء کو بھیجی پاکستان آنے کے بعد خاوند نے۔ 23 ستمبر کو پاکستان آیا اور پاکستان آنے کے بعد متعدد بار بیوی کو لینے بھی آیا تھا، لیکن بات نہیں بن سکی، پھر اب خاوند بضد ہے کہ میں نے ڈرانے کے لیے کہا تھا، یہ سب اور طلاق نہیں ہوئی، خاوند یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں کہ طلاق ہوئی ہے، اب خاوند اور بیوی ساتھ رہنے کے لیے راضی ہیں۔ قرآن و احادیث نبوی کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ مندرجہ بالا الفاظ کی ادائیگی کے بعد طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟

شوہر کا بیان

مجھے اس بیان سے اتفاق ہے۔ (*** (خاوند))

میاں بیوی کے درمیان ہونے والامیسج پر مکالمہ

حضرت صاحب عرض ہے کہ میرا اور میری بیوی کا چھوٹی سی بات پر مسئلہ ہو گیا ہے، میں بیرون ملک ہوتا ہوں۔ مسئلہ کچھ یوں ہے:

میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ ہمارے بچے کو ان کی دادا دادی سے ملا کے لے آؤ۔ میری بیوی اپنی ماں کی طرف رہتی تھی میری رضا مندی سے۔ مگر اس نے میری بات نہ مانی اور بچے کو نہیں بھیجا، کافی ٹائم گذرنے کے بعد وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ سیر کرنے کے لیے چلی گئی، جو کہ اس نے مجھے بتایا نہیں، اور مجھے اس پر شدید غصہ آیا، اس کا کہنا تھا کہ اچانک پروگرام بنا ہے جانے کے لیے، اس کے باوجود حضرت صاحب ہماری میسج پر کچھ یو ں بات ہوئی۔

میسج پر ہونے والی بات

خ: میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ تم مجھے بتائے بنا کہیں جاؤں گی۔

ب: یار اچانک ہوا ہے جانے کا۔

خ: مگر آج تم نے ثابت کر دیا ہے کہ میں غلط تھا، میری سوچ غلط تھی۔

ب: ہماری بات بھی نہیں ہو رہی تھی، میں نے اتنی بڑی قسم کھائی ہے، میرا اعتبار کریں آپ۔

خ: آج تم نے وہ کام کیا ہے جس کا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اتنی آزاد خیال لڑکی ہو تم، تم نے یہ نہیں سوچا کہ ہمارا گھر خراب ہو رہا ہے، وہ طلاق کا کہہ رہا ہے (اس سے مقصود پچھلے واقعے کی طرف اشارہ ہے، جس میں میں نے یہ کہا تھا کہ "میں تمہیں طلاق دے دوں گا”) ساری زندگی یاد رکھو گی تم۔

ب: میرا اچانک ہوا جانے کا، آپ اعتبار کریں میرے پر۔

خ: تم نے کبھی مجھے اپنا خاوند نہیں سمجھا، اک کھلونا بنا کر رکھا ہے، جاؤ آزاد ہو تم میری طرف سے، نفرت ہے تم سے، اب نہیں گذارہ تمہارا میرا، میں ہاتھ جوڑتا ہوں، مجھے معاف کرو، اب ہم نہیں رہ سکتے، پاگل ہو گیا ہوں میں، مجھے پتا چلانے کی ضرورت نہیں ہے، میں نے پکا پکا سوچ لیا ہے۔

ب: شاید آپ کو اعتبار آ جائے میرے پر۔

خ: تم میرے ساتھ نہیں رہ سکتی، میں تمہیں چھوڑتا ہوں۔

ب: کیا ہو گیا ہے، آپ کیوں ایسی باتیں کر رہے ہیں آپ،  میں آپ کے ساتھ ساری زندگی گذارنا چاہتی ہوں۔ اچانک ہوا جانے کا۔

خ: تم نے خود اپنے گھر کو خراب کیا ہے، تم نے مجھے صرف استعمال کیا ہے، میں پاگل ہوں جو تم سے محبت کر بیٹھا، میں نے تمہیں آزاد کیا (Talaq) طلاق۔

ب: آپ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں، فرمان کیا ہو گیا ہے آپ کو، آپ میری اتنی بات پر اعتبار نہیں کر رہے۔

خ: 7 دن تک ڈئیوس پیپر آجائیں گے، ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔

ب: اتنے معاملات خراب ہوئے، آپ بھی چلے گئے دبئی، اور میرا اچانک ہوا جانے کا، یاسین بھائی نے کہا تو زبردستی چلو، مجھے نہیں پتہ تھا اللہ کی قسم اتنا معاملہ خراب ہو جائے گا۔

حضرت صاحب یہ وہ میسج ہے جو ہم نے ایک دوسرے کو کیے۔

مگر نہ کبھی میری بیوی نے مجھے کہا تھا طلاق کا، اور نہ کبھی میں نے ایسا سوچا تھا، میں نے ڈرانے کے لیے یہ لفظ استعمال کیے، اور حضرت صاحب جو میں نے ڈئیوس پیپر بھیجا تھا، وہ میں نے جو میسج پر کہا تھا وہی میں نے پورا کیا۔ 23 ستمبر کو میں پاکستان آیا  اور 29 ستمبر کو میں نے تحریری پیپر بھیجا، جو ساتھ منسلک ہے۔ (فرمان)

طلاقنامہ کے الفاظ:

” تمام کوششوں کے باوجود مسماة مذکوریہ من مقر کے گھر آکر آباد ہونے سے انکاری ہے، جس کی وجہ سے فریقین کا آپس میں رشتہ ازدواج قائم رکھنا اندر حدود اللہ انتہائی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو گیا ہے، لہذا من مقر اپنی منکوحہ م*** کو طلاق اول دیتا ہوں، لہذا طلاق اول تحریر کر دی ہے۔”[1]

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر مسجد میں جا کر قرآن پاک ہاتھوں میں لے کر زبان سے یہ کہہ دے کہ "اللہ اور قرآن پاک کی قسم، میسج میں جو کچھ لکھا میری اس سے طلاق دینے کی نیت نہ تھی۔ صرف ڈرانے کی نیت تھی”۔ تو پھر مذکورہ صورت میں صرف ایک طلاق ہوئی ہے۔ جس کا حکم یہ ہے کہ عدت گذرنے سے پہلے رجوع کر سکتے ہیں۔ اور اگر رجوع کرنے سے پہلے  عدت گذر جائے تو پھر بھی آپس کی رضا مندی سے دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔

اور اگر شوہر اس طرح قسم دینے سے انکاری ہو تو پھر مذکورہ صورت میں تین طلاقیں ہوئی ہیں، جن کا حکم یہ ہے کہ نکاح ختم ہو چکا ہے، اور اب نہ رجوع ہو سکتا ہے، اور نہ صلح ہو سکتی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

مفتی رفیق صاحب کی رائے

[1] ۔ مذکورہ صورت میں تین طلاقیں ہو گئی ہیں۔ بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے۔ اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح ہو سکتی ہے۔

توجیہ: 1۔ "جاؤ آزاد ہو تم میری طرف سے” اس جملے سے عورت کے حق میں ایک طلاق بائنہ ہوئی۔ کیونکہ یہ جملہ کنایات کی قسم ثالث میں سے ہے، جس میں حالت غضب میں قضاءً بغیر نیت کے بھی طلاق ہو جاتی ہے۔

المرأة كالقاضي إذأسمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه. (شامی، ص: 449 ،ج:4)

2۔ "میں تمہیں چھوڑتا ہوں” اس جملے سے ایک طلاق رجعی ہوئی۔ چونکہ پہلے سے طلاق بائن موجود ہے، اس لیے یہ رجعی بائن شمار ہو گی۔

"میں نے تمہیں آزاد کیا، طلاق” اس جملے سے بھی ایک طلاق رجعی ہوئی، جو بالآخر سابقہ بائنہ طلاق کی وجہ سے بائنہ میں شمار ہو گی۔

باقی تحریری طلاق سابقہ وعدے کی وجہ سے ہے، اس لیے اس سے کوئی نئی طلاق واقع نہ ہو گی۔

لہذا مذکورہ صورت میں کل تین طلاقیں ہوئیں۔

نوٹ: یہ ساری تفصیل اس وقت ہے، جب اس تحریر میں "مرسومہ” و "غیر مرسوم” کی تفصیل اور فرق نہ کریں۔

اور اگر اس میسج کی تحریر کو غیر مرسوم شمار کریں تو پھر بظاہر ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔ البتہ طلاق نامہ کی تحریر سے صرف ایک رجعی طلاق واقع ہو جائے گی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved