• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح سے پہلے’’مجھ پر اپنی عورت بکلما طلاق طلاق ہو کہ میں آئندہ کیلئے ایسا کام کروں ‘‘کہنے کا حکم

استفتاء

گزارش یہ ہے کہ زید کسی گناہ میں مبتلا تھا پس زیدنے اس گناہ سے تنگ آکر کہا کہ ’’مجھ پر اپنی عورت بکلما طلاق طلاق ہو کہ میں آئندہ کیلئے ایسا کام کروں ‘‘اوربعد میں زید سے وہ کام ہوگیا، طلاق  کے الفاظ بولتے وقت زید کو معلوم نہیں تھا کہ زید کا نکاح ہوچکا ہے یا نہیں ۔بعد میں زید کو اتنا معلوم ہوا کہ زید کے نکاح کی جگہ متعین ہو چکی ہےاور مہربھی مقرر ہو چکاہے   اور تھوڑا مہرادا بھی کر دیاگیا ہے لیکن با قاعدہ نکاح کیلئےایجاب و قبول نہیں ہوا تھابلکہ صرف رشتہ پکا کیا گیا تھااور مہر مقرر کیا گیا تھااب اس عورت کو طلاق ہو گئی یا نہیں؟ اگر حوالے کےساتھ مدلل جواب دےدیں تو تمہارا ہم پر بہت احسان ہوگا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر واقعۃً زید کا نکاح نہیں ہوا تھا تومذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

توجیہ: تعلیق طلاق کے درست ہونے کی شرط یہ ہے کہ تعلیق کے وقت عورت نکاح میں ہو یاتعلیق میں نکاح کی طرف نسبت ہو۔مذکورہ صورت میں جس وقت زید نےتعلیق کی تھی اس وقت چونکہ عورت زید کے نکاح میں نہیں تھی اور نہ زید نے تعلیق میں نکاح کی طرف نسبت کی ہے لہذا مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

درمختار مع تنویرالابصار(4/582)میں ہے:’’(شرطه[التعليق] الملك) حقيقة كقوله لقنه: إن فعلت كذا فأنت حر أو حكما، ولو حكما (كقوله لمنكوحته) أو معتدته (إن ذهبت فأنت طالق، أو الإضافة إليه) أي الملك الحقيقي عاما أو خاصا، كإن ملكت عبدا أو إن ملكتك لمعين فكذا أو الحكمي كذلك (كإن) نكحت امرأة أو إن (نكحتك فأنت طالق)‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved