• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مختلف اوقات میں متعدد طلاقیں دینے کا حکم

استفتاء

طلاق کے بارے میں ہمیں بالکل علم نہیں تھا،  بس اتنا علم تھا کہ تین دفعہ  لگاتار بولنے سے طلاق  ہوتی ہے۔ میں نے 3، 4 سالوں میں لڑائی کے دوران  3 سے 4 مرتبہ  طلاق کے جملے کہہ دئیے پھر بعد میں وعدہ بھی کیا کہ آئندہ جب  بھی لڑائی ہوگی کبھی طلاق کا لفظ استعمال نہیں کروں گا ۔اب اس بات کو 3 سال گزر گئے  ہیں اور اب ہم دعوت اسلامی سے منسلک ہوئے  تو ہمیں  طلاق کے معاملے کا علم ہوا ۔ ہمارے چھوٹے بچے ہیں ہم بہت پریشان ہیں اب کیا حل ہے ؟ رہنمائی فرما دیں۔

اس کے بعد ہم نے کفریہ  کلمات والی کتاب بھی پڑھی ہے پھر اس کے پڑھنے کے بعد ہم نے احتیاطاً  2 دفعہ آپس میں نکاح بھی کیا جیسا کہ اس کتاب میں  لکھا ہوا تھا۔

وضاحت مطلوب ہے: (1) پہلی مرتبہ طلاق کے کیا الفاظ بولے تھے اور کتنی مرتبہ بولے تھے؟ پھر اس کے بعد  کیا الفاظ بولے تھے اور کتنی مرتبہ بولے تھے پوری تفصیل لکھیں۔ (2)  پہلی مرتبہ طلاق کے الفاظ بولنے کے بعد رجوع ہوا تھا یا نہیں؟ اگر ہوا تھا تو کتنے دن بعد؟دوسری  دفعہ کے بعد رجوع ہوا تھا یا نہیں؟ اگر ہوا تھا تو کتنے دن بعد؟

جواب وضاحت: (1)  پہلی مرتبہ 2 بار الفاظ  بولے تھے کہ ” طلاق دیتا ہوں” پھر کوئی 2 سال بعد پھر سے 2 مرتبہ  یہی  الفاظ بولے تھے۔ یہ علم نہیں تھا کہ ایسے  طلاق ہو جاتی ہے یہ میں حلفا کہتا ہوں اس بات کو 3،2 سال گزر گئے ہیں ۔ (2)جی پہلی دفعہ بولنے کے 1گھنٹے بعد رجوع ہو گیا تھا اور دوسری دفعہ بھی آدھے دن بعد اور تیسری دفعہ   کا مجھے یاد ہے کہ میں نے صرف ایسا کہا  تھا کہ ” طلاق”  یہ نہیں کہا تھا کہ ” میں دیتا ہوں ” پر میری بیوی کہتی ہے  کہ "دیتا ہوں” بھی کہا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن  کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے، لہٰذا اب فوری طور پر میاں بیوی الگ ہوجائیں اور تیسری طلاق کے بعد اب تک جو میاں بیوی کی طرح رہتے رہے اس پر توبہ واستغفار بھی کریں۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر کا یہ کہنا کہ مجھے طلاق کے معاملے  کا  علم نہیں تھااس کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں  کیونکہ شوہر کے لیے طلاق کے مسائل سیکھنے کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ نیز شوہر کو  طلاق کے مسائل نکاح کرنے سے پہلے سیکھنے چاہیے تھے لہٰذا شوہر نے جب پہلی مرتبہ طلاق کا جملہ "طلاق دیتا ہوں” دو دفعہ کہا تو چونکہ یہ جملہ طلاق کے لیے صریح ہے اس لیے اس سے دو رجعی طلاقیں   واقع ہوگئی تھیں پھر چونکہ اس کے ایک گھنٹے بعد رجوع ہوگیا تھا اس لیے نکاح قائم رہا۔ پھر دوسری مرتبہ جب شوہر  نے دوبارہ دو دفعہ یہی  جملہ کہا تھا تو اس سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی تھی اور نکاح ختم ہوگیا تھا۔

الدر مختار (4/443) میں ہے:

(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)….. (يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ….. (واحدة رجعية…..

فتاویٰ عالمگیری (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

الدر المختار (509/4) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل

قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق

نیز (193/5) میں ہے:

(قوله لتفرغها للعلم) أي لأنها تتفرغ لمعرفة أحكام الشرع والدار دار العلم فلم تعذر بالجهل بحر أي أنها يمكنها التفرغ للتعلم لفقد ما يمنعها منه

بدائع الصنائع (295/3) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved