• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

متعددکنائی الفاظ سےایک طلاق اور عدت کے بعد طلاق کا نوٹس بھیجنا

استفتاء

جناب عالی!میرا نام محمد عابدولد محمد رمضان ہے میں نے اپنی بیوی کو تقریبا 27دسمبر2017کو فون پر کہا ’’میں تمہیں فارغ کرتا ہوں ،میری طرف سے تم فارغ ہو ،میرا تم سے اب کوئی تعلق نہیں،مجھے دوبارہ فون مت کرنا‘‘اس کے تقریبا بیس یا پچیس دن بعد پھر اس کا فون  آیا اورمیں نے اس کو کیا ’’میری طرف سے تم فارغ ہو مجھے دوبارہ فون مت کرنا ،میںنے تم سے کوئی بات نہیں کرنی‘‘پھر سولہ اپریل 2018کو میں نے طلاق اول کا نوٹس بھیج دیا ،اسے کے بعد چھ مئی کو وہ میرے گھر  آئی صلح صفائی (جو کہ بغیر نکاح کے ہوئی تھی )کے بعد دو تین دن کوئی بات چیت نہ ہوئی پھر  جب بات ہوئی تو تلخ کلامی ہوئی اورتین دفعہ کہامیںتمہیںطلاق دیتا ہوں ،میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔اس معاملے میںمیری رہنمائی کی جائے ۔

نوٹ:جب یہ الفاظ بولے تھے تب بیوی حاملہ نہیںتھی نیز مذکوہ سارے الفاظ طلاق کی نیت سے کہے تھے۔ سولہ اپریل سے پہلے تین ماہواریاں گذرچکی تھیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرواقعتا شوہر نے طلاق کی نیت سے یہ الفاظ کہے تھے کہ ’’میں تمہیں فارغ کرتا ہوں،میری طرف سے تم فارغ ہو ،میرا تم سے اب کوئی تعلق نہیں ہے ‘‘تو ان الفاظ کے کہنے سے ایک طلاق بائنہ طلاق واقع ہوگئی جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ۔سولہ  اپریل کوطلاق کاجونوٹس دیا گیا وہ چونکہ عدت ختم ہونے کے بعد دیاگیاہے ۔اس لیے اس نوٹس سے شرعا کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔اس طرح چھ مئی کوجو صلح کی گئی وہ چونکہ نکاح کے بغیر کی گئی ہے اس لیے شرعانہ وہ صلح معتبر ہے او ر نہ ہی اس صلح کے بعد دی گئی زبانی طلاق معتبر ہے ۔لہذااگر میاں بیوی اکھٹے رہنے پر رضامند ہوں تو نکاح کر کے رہ سکتے ہیں نئے نکاح میں گواہوں کا ہونا ضروری ہے اور مہر بھی دوبارہ مقرر ہو گا۔

نوٹ:یہ جواب اس پر مبنی ہے کہ شوہر نے طلاق کے نوٹس اول سے پہلے پہلے جو الفاظ اپنی بیوی کو ٹیلی فون پر کہے وہ طلاق کی نیت سے کہے تھے۔لیکن اگر وہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہ کہے تھے تو طلاق کے نوٹس اول اور اس کے بعد کہے گئے الفاظ سے تین طلاق ہوگئی ہیںجن کے بعد نیانکاح کرکے رہنا بھی جائز نہیں ۔اس لیے شوہر اپنی نیت کو خوب سوچ لے ایسا نہ ہو کہ ساری زندگی حرام میں مبتلا رہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved