• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نشے کی حالت میں طلاق کا میسج لکھنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے  میں کہ چند مہینے پہلے میں نے آئس اور ہیروئن کے نشے اور غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو اور بیوی کے رشتہ داروں کو طلاق کے میسج بھیجے تھے، اس وقت  نشے کی وجہ سے میری دماغی حالت درست نہیں تھی،  میں ہوش میں نہیں تھا ، میں حلفا کہتا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں نے یہ میسج کب لکھا اور کس کس کو بھیجا، اس واقعہ کے دو دن بعد میری خالہ کی میری بیوی سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ عدنان نے مجھے طلاق کے میسج بھیجے ہیں، کیا اس میسج سے طلاق ہو گئی ہے؟

میسج کے الفاظ:

’’میں اپنے پورے ہوش و حواس سے منزہ عدنان ولد عبدالرزاق قوم شیخ کو زبان تراشی [درازی] اور اپنی من مانی اور بدسلوکی اور کہنا نہ ماننے کی وجہ سے طلاق طلاق طلاق دیتا ہوں‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر کا دعویٰ یہ ہے کہ نشے کی وجہ سے وہ ہوش میں نہیں تھا اور اسے میسج لکھنے کا علم بھی نہیں تھا لیکن بظاہر یہ بات خلاف واقعہ ہے کیونکہ ہوش میں نہ ہونے کے باوجود بالکل درست الفاظ میں میسج لکھنا اور بیوی اور اس کے رشتہ داروں کو میسج بھیجنا عادۃ ممکن نہیں،   لہذا ہمارے خیال میں مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے، لہٰذا بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں۔

توجیہ: ہماری تحقیق میں میسج کی تحریر کتابتِ مستبینہ غیر مرسومہ ہے اور طلاق کی کتابتِ مستبینہ غیر مرسومہ چاہے الفاظ کے لحاظ سے صریح ہو مگر کتابت اور پھر غیر مرسومہ ہونے کی وجہ سے نیت کے حق میں ملحق بالکنایہ ہوتی ہے  جس سے غصہ یا مذاکرۂ طلاق کے وقت شوہر کی نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں شوہر نے چونکہ طلاق کا تحریری میسج غصہ کی حالت میں بھیجا تھا اس لیے طلاق کی نیت نہ ہونے کے باوجود اس سے بیوی کے حق میں تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔

رد المحتار (4/432) میں ہے:

ان المراد ان يکون غالب کلامه هذيان فلو نصفه مستقيما فليس بسکر فيکون حکمه حکم الصحاة في اقراره بالحدود وغيرذلک

در مختار (4/427) میں ہے:

(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع ليدخل السكران (أو سكران) ولو بنبيذ أو حشيش أو أفيون أو بنج زجرا به يفتى تصحيح القدوري.

فتح القدیر (3/ 482) میں ہے:

و في مسئلة الطلاق خلاف عال بين التابعين و من بعدهم فقال بوقوعه من التابعين سعيد بن المسيب و عطاء و الحسن البصري و إبراهيم النخعي و ابن سيرين و مجاهد و به قال مالك و الثوري و الأوزاعي و الشافعي في الأصح و أحمد في رواية و قال بعدم وقوعه القاسم بن محمد و ربيعة و الليث و أبو ثور و زفر و هو مختار الكرخي و الطحاوي و محمد بن سلمة من مشائخنا.

فتاویٰ النوازل لابی اللیث السمرقندی(ص215) میں ہے:

ثم الكتاب إذا كان مستبيناً غير مرسوم كالكتابة على الجدار وأوراق الأشجار وهو ليس بحجة من قدر على التكلم فلا يقع إلا بالنية والدلالة.

البحر الرائق (103/3) میں ہے:

ومستبين غير مرسوم كالكتابة على الجدران وأوراق الأشجار أو على الكاغد لا على وجه الرسم فإن هذا يكون لغوا؛ لأنه لا عرف في إظهار الأمر بهذا الطريق فلا يكون حجة إلا بانضمام شيء آخر إليه كالبينة والإشهاد عليه والإملاء على الغير حتى يكتبه؛ لأن الكتابة قد تكون تجربة وقد تكون للتحقيق وبهذه الإشارة تتبين الجهة

درمختار مع ردالمحتار(4/509) میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل.

(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved