• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

  نشے کی حالت میں دو طلاقیں دینے کا حکم

استفتاء

بیوی کا بیان:

میں ** جو کچھ بیان کروں گی سوچ سمجھ کر بیان کروں گی، اللہ کو گواہ اور حاضر ناظر جان کر لکھوں گی، میں حلفاً بیان کرتی ہوں میری رخصتی یکم مارچ 1992ء کو ہوئی، میرے اپنے خاوند کے ساتھ شروع سے ہی اختلافات تھے، مگر کبھی اس نے مجھے براہ راست مخاطب نہیں کیا تھا، زندگی یوں ہی گزر رہی تھی میری کوئی اولاد نہیں تھی، میں نے اپنا غم مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی اور اُس کی بے رحمی کو برداشت کیا۔ اُس نے 19دسمبر 1997ء کو بلاو جہ اپنی ماں کی موجودگی میں مجھے دو طلاقیں  دیں ان الفاظ کے ساتھ میں کہ ”تمہیں پہلی طلاق دیتا ہوں” میں نے کہا میں نے لی، اس نے کہا "میں دوسری طلاق دیتا ہوں” میں نے کہا میں نے لی، پھر اُس نے "تیسری” کا لفظ کہا ہی تھا کہ میری ساس نے کہا چپ کر منہ بند کر اور یہ سُن کر وہ خاموش ہو گیا اور باہر چلا گیا یہ فجر کا وقت تھا، جب وہ واپس آیا اُس نے مجھ سے معافی مانگی اور کہا میں غصے میں تھا میں نے کہا تمہاری لڑائی میں میرا کیا قصور تھا؟ پھر بھی میں نے اُسے معاف کر دیا اور ہم میاں بیوی کی طرح رہتے رہے، میں نہیں جانتی کہ طلاق دیتے وقت وہ نشے میں تھے، وہ بالکل صحیح گفتگو کر رہے تھے، کوئی اول فول یا بے ہودہ بات انہوں نے نہیں کی، اور نہ ہی انہوں نے کوئی خلاف عادت کام کیا، ہاں اتنی بات ہے کہ انہوں نے ہینگر یا کوئی اور چھوٹی موٹی چیز غصے میں میری طرف پھینکی تھی، کئی سال میں نے ان دو طلاقوں کا ذکر اپنےوالدین سے نہیں کیا، حالانکہ لڑائی کی وجہ سے میں کئی بار گھر چھوڑ کر والدین کے پاس آئی اور یہ ہر بار معافی مانگ کر مجھے واپس لے آتا مگر کچھ ہی دنوں بعد اس کا رویہ ویسا ہی ہو جاتا، اس کے بعد بھی اس نے اپنے گھر والوں اور بچوں کے سامنے ہزار دفعہ غصے میں یہ الفاظ کہے  ہیں کہ "تم فارغ ہو” وہ سب اس بات کے گواہ ہیں، بچے بھی کہتے تھے  کہ اگر وہ بُری ہے تو فارغ کر دیں تو وہ کہتا کہ "میری طرف سے فارغ ہے” پہلی مرتبہ کب یہ الفاظ کہے تھے یہ مجھے یاد نہیں، لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ دو طلاقوں کے بعد ہی کہے ہیں۔ تیسری طلاق اُس نے 27مئی 2021ء کو مغرب کے بعد دی اس نے کہا تم اپنے سینے پر نشان دیکھو میں "تمہیں پہلی طلاق دیتا ہوں” دوسری عشاء اور تیسری فجر کے  بعد دوں گا میں نے کچھ نہیں کہا، میں نے بڑے بیٹے کو بتایا تو وہ خاموش ہو گیا ، رات میں نے وہیں گزاری، صبح جمعہ کا دن تھا، میں اپنے بیٹے کے ساتھ لیٹی تھی اس نے اپنے الفاظ دہرائے کہ "میں نے تیری ماں کو رات ایک طلاق دے دی ہے” میں نے کہا کہ اس نے دو طلاقیں ماں کے سامنے دیں تھیں اور تیسری کے گواہ اب تم ہو تو میں کیا کروں؟ بیٹے نے کہا اب آپ یہاں سے چلی جائیں اور میں اپنے بھائی کے گھر چلی گئی۔

شوہر کا بیان:

جو کچھ بیان کروں گا۔ وہ حلفاً بیان کروں گا۔ 27مئی 2021ء کو میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دی اور کہا کہ دوسری طلاق عشاء کے بعد اور تیسری فجر کے بعد دوں گا اس کے بعد ہماری کوئی بات نہیں ہوئی۔ اگلے دن میری بیوی نے کہا کہ تم نے مجھے تین طلاق دے دی ہیں۔ ایک کل والی اور دو تم نے 24سال قبل اپنی ماں کے سامنے دی تھیں، میں حیران ہو گیا اور کہا کہ میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا، اور میں یہاں حلفاً بیان کرتا ہوں کہ جب 27مئی کو میں پہلی طلاق دے رہا تھا تو مجھے 24 سال قبل کا واقعہ یاد نہیں تھا، اور میری بیوی جو کہتی ہے کہ میں اکثر کہتا تھا کہ فارغ کر دوں گا تو میں اپنی طرف سے اس کو راہ راست پر رکھنے کے لیے کہتا تھا۔ اور میری نیت اُس کو چھوڑنے کی نہیں تھی۔

دسمبر1995ء میں جو طلاق کا واقعہ ہوا تھا اس کی تفصیل یہ ہے کہ میرے چچا کی بیٹی اور پھوپھو کے بیٹے کی شادی کی تقریب تھی۔ اُس شادی پر میری والدہ اور میری چچی کا کسی بات پر جھگڑا ہوا تو ہم شادی کو چھوڑ کر گھر آگئے تھوڑی دیر بعد میرا چچا گھر آیا، اور ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو گیا، اور میں نے اپنے چچا کو بڑی مشکل سے قابو کیا، کیونکہ میں اس وقت شراب اور چرس کے نشہ کے زیر اثر تھا۔ تھوڑی دیر بعد میری بیوی گھر آئی تو میں نے اس کو جھگڑے کے دوران شدید غصے اور نشے کی حالت میں بغیر نیت کے اچانک اُس کو دو طلاقیں دے دیں،لیکن مجھےمعلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ،  میں یہاں حلفاً کہتا ہوں کہ جب یہ عمل ہوا میں نشے اور غصے کی حالت میں تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں جب شوہر نے 1997ء میں بیوی کو یہ کہا کہ "تمہیں پہلی طلاق دیتا ہوں” "میں دوسری طلاق دیتا ہوں” تو ان الفاظ سے دو رجعی طلاقیں واقع ہو گئیں،  کیونکہ اگرچہ شوہر کا دعوی یہ ہے کہ اس نے نشے اور غصے کی حالت میں طلاق دی ہے، لیکن اول تو نشے کی حالت میں بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے اور جن بعض حضرات کے نزدیک واقع نہیں ہوتی ان کے نزدیک بھی اس صورت میں واقع نہیں ہوتی جب کلام میں اختلاط وہذیان غالب ہو، مذکورہ  صورت میں بیوی کے بیان کے مطابق شوہر کا نشہ اس درجے کا معلوم نہیں ہوتا، نیز غصے کی کیفیت بھی ایسی نہیں تھی کہ شوہر کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے، اور نہ ہی اس سے خلاف عادت کوئی قول یا فعل سرزد  ہوا،  غصہ کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، پھر اس کے بعد چونکہ میاں بیوی اکٹھے رہتے رہے لہذا رجوع ہو گیا اور نکاح باقی رہا، پھر جب پہلی مرتبہ شوہر نے غصے میں بیوی سے یہ کہا کہ "تم فارغ ہو” تو بیوی کے حق میں تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی کیونکہ یہ الفاظ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں جن سے غصے کی حالت میں نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے، اور جب 2021ء میں شوہر نے یہ کہا کہ "میں تمہیں پہلی طلاق دیتا ہوں” تو ان الفاظ سے شوہر کے حق میں بھی تیسری طلاق واقع ہو گئی۔

ردالمحتار (32/44) میں ہے:(قوله أو سكران) السكر: سرور يزيل العقل فلا يعرف به السماء من الأرض. وقال: بل يغلب على العقل فيهذي في كلامه، ورجحوا قولهما في الطهارة والأيمان والحدود. وفي شرح بكر: السكر الذي تصح به التصرفات أن يصير بحال يستحسن ما يستقبحه الناس وبالعكس. لكنه يعرف الرجل من المرأة قال في البحر: والمعتمد في المذهب الأول نهر. قلت: لكن صرح المحقق ابن الهمام في التحرير أن تعريف السكر بما مر عن الإمام إنما هو السكر الموجب للحد، لأنه لو ميز بين الأرض والسماء كان في سكره نقصان وهو شبهة العدم فيندرئ به الحد وأما تعريفه عنده في غير وجوب الحد من الأحكام فالمعتبر فيه عنده اختلاط الكلام والهذيان كقولهما. ونقل شارحه ابن أمير حاج عنه أن المراد أن يكون غالب كلامه هذيانا، فلو نصفه مستقيما فليس بسكر فيكون حكمه حكم الصحاة في إقراره بالحدود وغير ذلك لأن السكران في العرف من اختلط جده بهزله فلا يستقر على شيءفتاوی شامی (4/439) میں ہے:قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل علی عدم نفوذ أقواله …..فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن ادراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.درمختار مع ردالمحتار (4/509) میں ہے:كرر لفظ الطلاق وقع الكل.(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved