• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

  نشے کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

استفتاء

محترم مفتی صاحب میرا نام***ہے، میرے والد کا نام خالد ہے، چھ مہینے پہلے میری شادی ہوئی ہے، چودہ دن پہلے  میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی، میں اپنے والد کے گھر ہوں، میرے شوہر نے میری ساس کے شکایت کرنے پر مجھے طلاق دی، کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں تھا بس گھریلو بات پر طلاق دی ہے، میرے شوہر اس وقت نشے میں تھے، انہوں نے شراب پی رکھی تھی، نشے میں ان کے ہوش حواس قائم تھے، اور وہ بالکل ٹھیک گفتگو کر رہے تھے، کوئی بے ہودہ بات یا غلط بات انہوں نے نہیں کی جس سے معلوم ہو کہ وہ ہوش میں نہیں ہیں، پہلے انہوں نے مجھے ایک سادہ کاغذ پر لکھ کر طلاق دی جس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’ میں**اپنے ہوش و آواز میں** کو طلاق دیتا ہوں‘‘  میں اس بارے میں اپنے ساس سسر سے بات کر رہی تھی کہ کیا اس طرح طلاق ہو جاتی  ہے؟ اتنے میں انہوں نے زبان سے بھی طلاق  دے دی، ان کے الفاظ یہ تھے کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی، میں نے تمہیں طلاق دی، میں نے تمہیں طلاق دی، اگر تمہیں گواہوں کی ضرورت ہو تو یہ میرے ماں باپ  تمہارے سامنے بیٹھے ہیں یہ گواہ ہیں‘‘  کیا اس صورت میں طلاق ہوگئی ہے یا نہیں ہوئی؟

نوٹ: بیوی سے شوہر کا رابطہ نمبر طلب کیا گیا تو اس نے کہا کہ ان سے ہمارا تعلق ختم ہو چکا ہے، انہوں نے حق مہر بھی مجھے بھیج دیا ہے، اور جو موبائل شادی میں ہم نے انہیں تحفہ دیا تھا وہ بھی انہوں نے واپس بھیج دیا ہے، اب ان کا رابطہ نمبر مہیا نہیں کیا جا سکتا، اس لیے بیوی کے بیان کے مطابق مشروط جواب لکھا جا رہا ہے، اگر شوہر کو اس بیان سے اتفاق نہ ہوا تو مذکورہ جواب کالعدم ہو گا۔

 

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا نشے کی حالت میں شوہر کی گفتگو میں اختلاط و ہذیان غالب نہیں تھا اور اس نے یہی الفاظ کہے تھے کہ ’’ میں نے تمہیں طلاق دی، میں نے تمہیں طلاق دی، میں نے تمہیں طلاق دی ‘‘ تو  تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: نشہ کی صورت میں طلاق معتبر نہ ہونے کا اعتبار اس صورت میں ہے کہ جب کلام میں اختلاط وہذیان غالب ہو، مذکورہ  صورت میں بیوی کے بیان کے مطابق  شوہر کا نشہ اس درجے کا معلوم نہیں ہوتا لہذا مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں۔

ردالمحتار (432/4) میں ہے:صرح المحقق ابن الهمام فى التحرير أن تعريف السكر بما مر عن الامام انما هو فى السكر الموجب للحد وأما تعريفه عنده في غير وجوب الحد من الأحكام فالمعتبر فيه عنده اختلاط الكلام والهذيان كقولهما. ونقل شارحه ابن أمير حاج عنه أن المراد أن يكون غالب كلامه هذيانا، فلو نصفه مستقيما فليس بسكر فيكون حكمه حكم الصحاة في إقراره بالحدود.درمختار (4/509) میں ہے:كرر لفظ الطلاق وقع الكل.(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved